تین جنوری 2020ء ، پینٹاگون (ریاستہائے متحدہ امریکہ کے محکمہ دفاع کا ہیڈکواٹر)نے اس بات کی تصدیق کی کہ امریکی فوج، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم سے، بغداد ایئر پورٹ پر ڈرون حملے کے لئے ذمہ دار ہے, جس میں بیرون ملک ایران کاروائیوں کے انچارج، ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی القدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کیا گیا۔
سلیمانی آیت اللہ حکومت کے بنیادی طاقتور مضبوط لوگوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے گذشتہ دو دہائیوں کے دوران انٹیلی جنس اور ایرانی مسلح افواج کے معمار کے کردار کو بھرپور طریقے سے پورا کیا۔ کچھ تجزیہ کار، حتیٰ کہ سپریم لیڈر، علی خمینی کے بعد انہیں ملک کا سب سے طاقتور فرد سمجھتے تھے۔ اُن کی موت تہران کے لئے ایک دھچکا ثابت ہوئی ہے۔
ٹرمپ کا یہ فوجی اقدام ناقابلِ قبول اور اشتعال انگیزی کی واضع شکل ہے۔ معاشی، سیاسی اور ممکنہ طور پر عسکری شعبوں میں اس کے غیر متوقع نتائج برآمد ہوں گے۔اس واقع کے بعد علی خمینی نے، ”سخت انتقام” کی یقین دہانی کرائی تھی جس کی مثال،ہم آج ایران کی جانب سے ایک درجن سے زائد میزائل فائر حملے کی صورت میں دیکھتے ہیں جو عراق میں دو امریکی فوجی اڈوں پر صبح ساڈھے پانچ بجے کئے گئے۔ امریکی صدر نے عراق میں پہلے سے موجود لگ بھگ 5,200 ، فوجیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے، علاقے میں جنگی جنون کو تقویت دینے کی خا طر مذید 3500 فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان کیا ہے۔ جنگ میں اضافے کے پیش ِنظر منڈیوں میں خام تیل کی قیمت میں چار فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
آئی ڈبلیو ایل(IWL-FI)اور محنت کش تحریک (RYWM) اس نئے سامراجی حملے کی شدید مذمت کرتی ہے، جس سے ایران اور عراق کی خودمختاری کو خطرہ لا حق ہو گیا ہے۔ مشرقِ وسطی،وہ خطہ ہے جس کو پہلے بھی جنگوں کے ذریعے پوری قوم کے لہو سے بھگویا گیا تھا،اب ایک بارپھر، عالمی طاقت کے جابرانہ کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے، امریکی دارالحکومت کے زیر اہتمام فوجی بغاوتوں کو ہوا دی جا رہی ہے۔ اور گویا بات یہیں تک ختم نہیں ہو جاتی، صیہونی ریاست اسرائیل اور سعودی عرب سے شروع ہونے والی کئی دہائیوں تک محیط، نسل کشی کے تسلط پسند آمروں کو واشنگٹن کی پختہ حمایت بھی حاصل ہے۔
اگرچہ سامراجی سرقہ(لوٹ مار) ناگوار ہے اور اس نے مشرقِ وسطی میں لاتعداد جانوں کے ضائع ہونے کا دعوی بھی کیا ہے، لیکن یہ ممکن ہے کہ ٹرمپ کے اس اقدام کو ترتیب دینے کے محرکات اور بھی ذیادہ بدنیتی کا شکار ہوجائیں۔
اس جنگی اقدام کا، موجودہ امریکی اندرونی حالات سے وابستہ ہونے کی بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، کم از کم جزوی طور پر، موجودہ وائٹ ہاؤس کے ممبران کی طرف سے انتخابی حساب کتاب پر غیر متوقع حملہ، جو کہ انتہائی قدامت پسند اور جنگجو انتخاب کرنے والے انتخابی شعبے کو بہتر بنانے کے لئے بے چین ہیں۔ یا پھر مواخذہ عمل سے توجہ ہٹانے کے لئے جو ٹرمپ نے حال ہی میں ایوانِ نمائندگان میں برداشت کیا ہے۔ یہاں تک کہ خطے میں اس کے اسٹریٹجک اتحادی، اسرائیل کی نسل کشی، جس کی حکومت ایک بڑے سیاسی بحران اور ایک پیچیدہ انتخابی عمل سے گزر رہی ہے، کی بالواسطہ مدد کرنے کے ایک ممکنہ ارادے کی جھلک بھی ہو سکتی ہے۔ ممکنہ ایرانی ردعمل کا سامنا کرنے والے اسرائیل نے جتنی جلدی ممکن ہو سکتا تھا، اس حملے کے اعلان میں تاخیر نہیں کی۔
منافقانہ انداز میں، ٹرمپ نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے اس حملے کا جواز پیش کیا کہ سلیمانی اپنے ملک کے اندر اور باہر ایک خونخوار کمانڈر تھا جسے ”بہت سال پہلے ہی مر جانا چاہئے تھا۔” یقینی طور پر، سلیمانی نہ صرف ایرانی آمرانہ – الہامی حکومت کا ایک کلیدی حصہ تھا، بلکہ ُاس نے اپنی سر پرستی میں سب سے زیادہ جابرانہ اور متحرک ونگ بھی تشکیل دیا۔ ایک اندازے کے مطابق ایران میں حالیہ مظاہروں کے وحشیانہ جبر کے نتیجے میں 200 سے 400 افراد ہلاک ہوئے۔
اس کے علاوہ، سلیمانی کے ہاتھ شام اور عراق میں، ایرانی موت کے دستوں کی کمانڈ کرتے ہوئے، اُن کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ، شام میں ایرانی حکومت – روس، حزب اللہ اور چین کے ساتھ مل کر، عوامی انقلاب کو خون میں ڈبونے اور خونخوار آمر بشارالاسد کو اقتدار میں رکھنے کے لئے ذمہ دار ہے۔اسی طرح عراق میں، سلیمانی جاری انقلاب کے ہزاروں مظاہرین کے قتل کا ذمہ دار تھا۔ اوریہ سمجھنا بھی مشکل نہیں ہے کہ بہت سارے عراقی مظاہرین کہ جن کو چار سو سے زیادہ اموات کی قیمت پر حکومت کا سامنا کئی مہینوں تک کرنا پڑ رہا تھا،انہوں نے سلیمانی کی موت کا جشن کیوں منایا؟
لہذا کوئی بھی سامراجی انسان دوست مقاصد رکھنے والے کے ساتھ خود کو بیوقوف نہیں بنا سکتا۔ سلیمانی کو ہلاک کرنے والے اس حملے کو صرف ایرانی خودمختاری، خاص طور پر اس کے جوہری ہتھیاروں کے ترقیاتی منصوبے سے امریکی مستقل دشمنی کے تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔ اوبامہ انتظامیہ، جس کا مطلب آیت اللہ کے ذریعہ ایک بہت بڑا استحصال کرنا تھا، کے ساتھ ترقی پسند تخفیف(اسلحے کے خاتمے کا) معاہدہ طے پانے کے بعد، صدر ٹرمپ نے 2018 میں اس سے دستبرداری اختیار کرلی اور معاشی پابندیاں دوبارہ شروع کردیں۔ ایران میں مرکزی فوجی شخصیات کے قتل نے اس تنازعہ میں،ایک دھماکہ خیز تناظر میں سنگین وسعت کا آغاز کیا ہے۔
مثال کے طور پر، 311 دسمبر کو، ہزاروں مظاہرین نے شام کے ساتھ عراق کی سرحد پر امریکی حملے کی جوابی کارروائی کرتے ہوئے بغداد میں امریکی سفارتخانے کا گھیراؤ کرلیا جس میں 25 افراد ہلاک ہوگئے۔ نعرہ تھا: امریکہ کو موت!
آیت اللہ کی آمرانہ حکومت کو کسی بھی طرح کی سیاسی حمایت کے بغیر، ہم کسی بھی سامراجی جارحیت کے خلاف، ایرانی عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ سڑکوں پر نکل کر ٹرمپ کے ایران اور عراق پر حملے کی مکمل تردید کی جائے۔
اس کے ساتھ ہی ہمیں اُن بغاوتوں کے لئے بھی حمایت کا اظہار کرنا چاہئے جو اس خطے کو دوبارہ سے لرزا رہے ہیں، خاص طور پر لبنان، عراق اور خود ایران میں بھی۔
خبردارسامراج! ایران، عراق اور مشرق وسطی سے دور رہو!





