010-12 2 کے دوران ہندوستان طبقاتی جدوجہد کامحور رہا۔ 2010 میں ٹریڈ یونینز کی طرف سے کی گئی عام ہڑتال ہندوستان کے محنت کشوں کی سب سے بڑی بڑی نقل و حرکت تھی۔ اسی دور میں شمالی ہندوستان کے علاقوں گرگاؤں اور نوئیدا کے آس پاس گاڑیاں بنانے والے صنعتی بیلٹ میں شدید جدوجہد ہوئی۔ طلباء اور نوجوانوں کے سب سے اہم جمہوری سوالات،کشمیر کی حق ِ خودارادیت،صنفی مساوات اور سیاسی بد عنوانی کے خلاف مظاہرے مزاحمتی باب کا آغاز کرتے چلے گئے۔
ادھیراج بوس
ان سبھی مظاہروں کے اجتماعی نتائج نے کانگریس پارٹی کے بے بنیاد وجود کو واضع کر دیا،یہ ایک ایسی سیاسی جماعت رہی ہے جس نے تاریخی طور پہ ہندوستان پر بیشتر بار حکمرانی کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام تعمیر کیا ہے جیسا کہ ہم سب اس جماعت کی تاریخ کو بخوبی جانتے ہیں۔ بدقسمتی سے محنت کشوں کی یہ تحریکیں کئی سالوں سے انقلابی قیادت کے فوقدان کی وجہ سے کبھی بھی متحد نہ ہو سکی، وہ انقلابی قیاد ت جو اِن تحریکوں کو محض انتخابی تبدیلی سے بالاتر کسی دوسرے رُخ کی طرف لے جاسکتی تھی۔اس کے نتیجے میں، اصلاحات پرست کانگریس کی نسبت بی جے پی اور آر ایس ایس کی زیادہ منظم تنظیمی قوتوں کو فائدہ ہوا،۔ اسی دور میں ہندوستانی اسٹالن ازم کا خاتمہ بھی دیکھا گیا جب بائیں بازو کے محافظ مغربی بنگال میں اپنا سب سے بڑا حلقہ کھو بیٹھے، جسے بائیں بازو کی قیادت نے بغیر انقلابی قوت اور انقلابی اُبھار کے تعمیر کیا تھا۔اسٹالن ازم کی غیر مقبولیت کی وجہ سے ٹرائینامول کانگریس(TMC) کی شکل میں ایک علاقائی نیم فاشسٹ قوت ابھری۔ نوجوانوں اور کسانوں کے احتجاج جس نے ریاست میں اسٹالنسٹ حکومت کا خاتمہ کیا، اور انقلابی صورتِ حال پیدا کی،جس سے انقلابی تنظیم کی بنیاد ڈالی جا سکتی تھی، لیکن ایک بار پھر، انقلابی قیادت کی تعمیر میں ناکامی کی وجہ سے یہ احتجاج اور مظاہرے زحل ہوئے جس سے رد انقلابی قوتوں کو موقع ملا کہ وہ محنت کش طبقے پر مسلط ہوں۔
اس طرح، اس پس منظر کے ساتھ ہم ہندوستان میں بی جے پی کی حکمرانی کے دور تک پہنچتے ہیں۔ سال 2014 میں، لوگوں کو کانگریس حکومت کی بدعنوانی اور جبر اب بھی یاد ہے۔ کانگریس کے لئے نفرت بی جے پی کے خوف سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔اب بورژوا لبرلز کانگریس کو کم برائی کے طور پر فروغ دے سکتے ہیں، لیکن وہ کانگریس کی حکومت اور اس کے جبر میں مبتلا بڑی تعداد میں مزدوروں اور باقی محنت کش عوام کی اکثریت کو راضی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
رد عمل اور مزاحمت:
اقتدار میں آتے ہی بی جے پی نے زمین کے حصول کے ایکٹ (Land Acquisition Act) میں ترمیم کو نشانہ بناتے ہوئے ملک کے سامنے اپنا رجعت پسند ایجنڈا واضح کردیا۔ اس حکومت کی یہ پہلی بڑی شکست بھی تھی جب اس اقدام کے خلاف ملک بھر کے کسانوں نے احتجاج کیا۔ پارلیمنٹ میں، حزبِ اختلاف کی جماعتیں حکومت کے آرڈیننس کو روکنے کے لئے متحد ہوگئیں،اور آخر کار یہ آرڈیننس ختم ہوگیا۔
اس شکست کے باوجود بی جے پی نے اپنے ذاتی مفادات پر مبنی کاروباری اور رجعت پسند معاشرتی ایجنڈے سے دستبرداری نہیں کی۔
پروویڈنٹ فنڈ(Provident Fund) پر شرح سود کم کرنے کے حکومتی اقدام نے اسی طرح کے حالات کا پھر سے سامنا کیا، اسے ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں اور ہڑتال کے خطرے کے پیشِ نظر شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ آخرکار، حکومت اپنی مجوزہ کفایت شعاری کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکی۔ اگرچہ، اس سے وہ مزدور قوانین میں ترمیم کرنے کی کوشش سے باز نہیں آئی ہے جس کا مقصد سرمایہ داروں کے لئے محنت کش طبقے کا زیادہ اچھی طرح سے استحصال کرنا شامل ہے۔
بی جے پی’ہندوتوا ‘کے ایجنڈے میں جڑی ہوئی جماعت ہے،اور اس نے اپنے اس ایجنڈے کے مقاصد کو پورا کرنے میں کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ بی جے پی کی حکمرانی کا سب سے زیادہ فائدہ اس کی مادر تنظیم، آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کورہا ہے۔ ملک بھر میں اقلیتوں، خاص کر مسلمان اور عیسائیوں پر نگران‘گائے کے محافظوں ’کے حملے ہوئے۔ ان حالات میں اس کے خلاف کھڑے ہونے والی تحریک بظاہر ایک سیکولر، جو کسی سیاسی تشکیل کے تحت متحد نہیں تھی، بلکہ ہندوستانی ریاست کی سیکولر نوعیت کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ایک ایسی مہم جو تمام مذہبی گروہوں کو برابری کا درجہ دیتی ہے۔ اگرچہ سیکولر تحریک نے بائیں بازو کی جماعتوں اور مرکزیت پرست قوتوں دونوں کو اکٹھا کرلیا ہے، لیکن بائیں بازو کی قوتیں اس پرکبھی بھی قابو نہیں پاسکیں۔ جس سے سیکولر ریاست کا دعوی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے، اور سیکولرازم کا دفاع کرنے کا مطالبہ کبھی بھی آئین اور ہندستانی قانونی نظام کی حدود سے باہر نہیں نکل سکے گا۔انقلابی قوتیں سیکولرازم کی اس تحریک کے بیانیے کو انقلابی رنگ دینے میں ناکام ہو چکی ہیں۔
موجودہ صورت ِ حال میں سیکولر تحریک، مزدور طبقے کی جدوجہد اور نچلی ذاتوں کی اہم جمہوری جدوجہد کے سامنے انتہائی کمزوری کا شکار ہے۔ اگرچہ اس پر قابو پانے کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں۔چونکہ بی جے پی کے اقتدار میں دلت بھی خود کے لئے خطرہ محسوس کرتے ہیں اس لیے تمام تحریکوں کا آپس میں سنگم بڑھتا اور مزید مضبوط ہو رہا ہے۔
بی جے پی کی مخالفت کے نتیجے میں کچھ اہم ضمنی انتخابات میں (کانگریس پارٹی) کو ابتدائی انتخابی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہ کچھ اہم ریاستی انتخابات میں، خاص طور پر کرناٹک سے ہار گئی۔ رائے دہندگان نے بی جے پی کے منحرف وعدوں کو دیکھنا شروع کردیا اور رجعت پسندی کا یہ ایجنڈا لوگوں کی وسیع اکثریت پر فتح حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ تاہم، وہ 2014 میں اپنی انتخابی فتح سے پرجوش رہے اور حزب اختلاف کے میدان میں بورژوا اور اسٹالن پارٹیوں کے غلبے نے عوام کی انتہا پسندی کو روک دیا۔اور اس سے بی جے پی کے اقتدار کے خلاف عوامی مخالفت کی طاقت ختم ہوگئی۔
مزدور طبقے کی کمزور قیادت اور انقلابی قیادت کی غیر حاضری کی وجہ سے ابھرتی ہوئی تحریکوں کی طاقتیں کمزور ہو کر منتشر ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت بڑے پیمانے پر سرکاری شعبوں کی کمپنیوں،تعلیمی اداروں اور کسانوں کے حقوق پر حملے کر رہی ہے۔ ملک بھر میں کسانوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر متحرک ہونے کے باوجود، جس میں کسانوں کا طاقتور ترین بمبئی مارچ اور دوسرے مظاہرے شامل تھے لیکن اس کے باوجودہ ہندوستان کی زراعت کو سنگین بحران کو روکنے کے لئے ابھی تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، اور نہ ہی کوئی طویل لمدتی حل نکلا ہے۔اتنے وسیع پیمانے پراحتجاجی مظاہروں کے باوجود، موجودہ حکومت، حیرت انگیر طور پر، مزدور طبقے، کسانوں اور نوجوانوں کے مقابلے میں اپنے سب سے بڑے سرمایہ داروں (ٹاٹا، اڈانیوں اور امبانیوں) کی بہت زیادہ پرواہ کرتی نظر آتی ہے۔
اب تک عوام کاسب سے زیادہ انقلابی اورسیاسی طور پر سرگرم طبقہ طلباء اور نوجوان ہی ہیں جنہوں نے مودی سرکار کے خلاف،تعلیمی اداروں کی خودمختاری اور معیار پر حکومتی حملوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے اہم تحریکوں کی قیادت کی ہے۔ 2015 میں FTII میں ہونے والے مظاہرے ملک بھر میں بہت زیادہ وسیع رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان مظاہروں نے مخلوط اور محدود کامیابیوں کو دیکھا ہے، لیکن اب2020میں اپوزیشن کا ایک اہم مرکز بنے ہوئے ہیں جن کی طاقت اور تعداد میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔
2019 کے بعد کی صورتحال:
اپنی شکستوں اور رکاوٹوں کے باوجود، بی جے پی نے 2019 کے عام انتخابات میں حیرت انگیز طور پر بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ اس کے پیچھے ایک اہم وجہ اسقاطِ زر (Demonetized) کا ایک غیر متوقع اور صدمہ انگیز اقدام اٹھانا تھا۔ نومبر2018کی ایک آدھی رات کو، وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ تمام پانچ سو اور ایک ہزار روپیہ کے نوٹ، جو گردش میں نقد قیمت کا 80 فیصد ہیں، کو ختم کردیا جائے گا۔ مطلب، وہ اس رات کے بعد، قانونی ٹینڈر کے طور پر کام نہیں کریں گے۔ پورے ملک کو گھبراہٹ میں ڈال دیا گیا تھا کیونکہ ہندوستانی شہری بینکوں میں کھڑے ہو کر اور فوری طور پر منی چینجرز کو اپنے نوٹ بیکار ہونے سے بچانے کے لئے نکل آئے تھے۔
اس اقدام سے سب سے زیادہ متاثر غریب افراد ہوئے، جنھیں اپنا پیسہ بدلنے کے لئے قطار میں کھڑے ہونے کے لئے اپنے ایک قیمتی دن کا کام ضائع کرنا پڑا۔ ملک کے بیشترحصوں میں پیٹی بورژوازی کے کچھ سیکشنز میں احتجاج شروع کیا گیا، تاہم اس اقدام کے خلاف کوئی ملک گیر احتجاج نہیں ہوا،کیوں کہ حکومت کی طرف سے لوگوں پر پُر تشدد اقدامات ہو نے کا خطرہ بہت مضبوط تھا اور خطِ غربت سے نیچے والی آبادی اس کا زیادہ نشانہ بن سکتی تھی۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد، بااختیار حکومت نے سامان اور سروس ٹیکس ایکٹ میں تبدیلی کی اور اسے آگے بڑھایا۔ اس نئے حکومتی ٹیکس کی جلد بازی سے پورے ملک میں انتشار اور افراتفری پھیل گئی، یہاں تک کہ ہندوستان کی بیرونی تجارت کو بھی نقصان پہنچا۔ ان چالوں کے دوہرے اثرات نے معیشت کو برباد کردیا، اور ان کے بُرے اور گہرے اثرات کی وجہ سے ہندوستانی معیشت غیر معمولی سطح پر آ گئی۔ تاہم، انھوں نے پہلے سے قائم شدہ سیاسی جماعتوں کو بھی ضرورت سے زیادہ کیش فنڈ سے محروم کردیا۔
نوٹ بندی(Demonetization)اور جی ایس ٹی(GST) کے دوہرے ہتھکنڈوں کی بدولت، بی جے پی نے اپنے سب سے اہم پارلیمانی حریفوں کو عام انتخابات میں موثر انداز میں لڑنے کے ذرائع سے محروم رکھنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اس کے علاوہ، ہندوستان کے عوام کو مستقل طور پر قائم بورژوا اور انسداد انقلابی‘بائیں بازو کی پارٹیوں‘ کے بارے میں جو شکوک وشبہات ہیں، ان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی نے بغیر کسی چیلینجر کے ریس جیت لی ہے۔
بی جے پی کی دوسری فتح بہت سے لوگوں کے لئے مایوسی کا باعث تھی جو حکومت کے خلاف لڑے تھے، لیکن بڑے پیمانے پر پھر بھی پارٹی کے خلاف مظاہروں اور مخالفت میں مسلسل اضافہ ہوا۔ حکومت نے اپنی طاقت کو ان ملک گیر احتجاجوں کے سامنے کمزور نہیں ہونے دیا حتیٰ کہ مہاراشٹر اور راجھستان جیسے اہم ریاستی انتخابات میں شکست کے باوجود بھی پُر تشدد ایجنڈا آ ٓگے بڑھنے سے باز نہیں آئی۔ ان سب میں اہم بات ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنا تھا، (جس نے کشمیر کو داخلی معاملات میں کچھ حد تک خودمختاری دے رکھی) اور قومی شہریت رجسٹرڈ کرنے کے ان کے عزم کو مدنظر رکھتے ہوئے شہریت کے قانون میں ترمیم کی۔
برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد سے ہی ہندوستان اور پاکستان دونوں کے لئے کشمیر ایک کانٹے کا مسئلہ رہا ہے۔ کشمیری عوام کے لئے، دونوں طاقتیں ان کے حق ِخودارادیت کی تردید میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ دونوں ریاستوں کو خطے کے عوام سے قطعاً کوئی ہمدردی نہیں ہے اور وہ واقعتا صرف ریاست کے وسائل ہڑپنا چاہتے ہیں (بنیادی طور پر اس کا پانی اور اہم زرعی وسائل)۔ اس کے علاوہ انڈیا اور چین کے لیے اسٹریٹجک فائدہ۔ تاہم، پچھلے سال تک، ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ایک ڈھونگ موجود رہا کہ اس نے ریاست جموں و کشمیر کو بھی ایک مرکزی خطے کی حیثیت سے محروم کردیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہندستان کے نیم وفاقی ڈھانچے میں کسی ریاست کو ملنے والی محدود مراعات سے بھی انکار کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، ریاست کو مشرق میں لداخ اور مغرب میں جموں و کشمیر کے درمیان تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ،خطے میں ایک طویل لاک ڈاؤن تھا جہاں مواصلات بند کردیئے گئے تھے، اور کرفیو نافذ کرنے کے لئے بڑی تعداد میں فوجی دستے تعینات تھے۔ سیاسی رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا اور بہت سارے ابھی بھی قید ہیں اور اختلاف رائے کو روکا جارہا ہے۔ اب بھی مواصلات کا نظام محدود ہے اور انٹرنیٹ تک رسائی بہت ہی کم یا نہ ہونے کے برابر ہے، بھارت کے اس اقدام پر بین الاقوامی سطح پر مذمت بھی کی گئی ہے، لیکن حکومت اس سب احتجاجوں اور مذمتوں سے بے نیاز نظر آتی ہے۔
تمام عملی مقاصد کے لئے، کشمیر آج ایک قید خانہ ہے، جو فوجی قبضے میں ہے۔ طویل عرصے میں، کشمیر کے انضمام سے صرف ہندوستانی سرمایہ دار طبقے کو فائدہ ہوگا، کیونکہ جائیداد کی خریداری پر پابندی ختم کردی جائے گی، اور ہندوستان کی طرف سے ہونے والی آباد کاری سے، بحرانوں سے دوچار ہندوستانی سرمایہ دارانہ نظام میں توسیع کے لئے ایک نئی منڈی پیدا ہو جائے گی۔ یہ سوائے ڈھٹائی سے نوآبادیاتی نظام نافظ کرنے کے اور کچھ نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت باقی ماندہ کشمیر کے لیے حقِ خود ارادیت کی جدوجہد کے خاتمے کی بھی نمائندگی کرے گی۔ ابھی تک، کشمیر کی حیثیت کو ختم کرنے کے اقدام پرباقی ہندوستان میں محدود احتجاج ہی ہوا ہے اور کشمیر کے اندر،ایسا کوئی احتجاج منظم اور متحرک کرنے کی شاید ہی اب کوئی گنجائش موجود ہے، بظاہر توایسا لگتا ہے کہ حکومت نے یہ خاموش اور یک طرفہ جنگ جیت لی ہے۔
دوسری طرف شہریت ترمیمی ایکٹ میں ایسا نہیں ہے۔ بی جے پی(BJP) نے جس ترمیم کی تجویز دی ہے اس سے پانچ مذہبی برادریوں کے ممبروں کو یہ اجازت ملے گی کہ وہ ہندستان کی شہریت بہت آسانی سے حاصل کر سکیں، کہ جنہیں اِن تین ممالک، افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن وہ مسلمان ممالک کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ نے کے بعد۔ اس طرح، نئی شہریت ایکٹ نے ہندوستانی شہریت کو مذہب کے نام پر مشروط کردیا ہے۔ تاہم، اس کی ایک اور جہت بھی ہے۔
قومی شہریت رجسٹر ڈ ایکٹ دراصل اس بات کی نشاندہی کی کوشش ہے کہ حقیقی ہندوستانی شہری کون ہیں؟اور غیر قانونی طور پر نقل مکانی کرنے والے افراد کتنے اور کہاں کہاں سے آئے ہوئے ہیں۔ آسام پہلی ریاست تھی جس میں اس پالیسی کو نافذ کیا گیا تھا۔اس سارے عمل کے اخراجات بہت زیادہ تھے، اور بہت سے لوگوں کو اس بوجھل اور غیر منصفانہ عمل کے دوران بے بہا مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، بہت سے افراد کو حراستی کیمپوں میں بند رکھا گیا کہ جب تک کہ ان کی شہریت ثابت نہیں ہو سکی۔ اس عمل کے اختتام پر، 20 لاکھ افراد کو شہریت دینے سے روک دیا گیا۔ آخر کار، صرف چند ہزار نام نہاد ”غیر قانونی تارکین وطن” کو اس عمل سے بازیافت کیا گیا، جبکہ اب بھی ان کی شہریت مکمل شک سے آزاد نہیں۔ آسام معاشرہ پولرائزڈ ہوا اور آخر میں ٹوٹ گیا، او ر اب اس خلل کے معاشی اثرات آئندہ برسوں تک محسوس کیے جائیں گے۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بی جے پی نے آسام میں اپنی غیر موزوں سیاسی صورتحال کو درست کرنے کے لئے شہریت ترمیمی ایکٹ پر زور دیا، جہاں شہریت کی فہرست سے محروم رہ جانے والے بیشتر افراد حقیقت میں ہند و ہی تھے، جو نام نہاد ‘دراندازیوں ‘ کے جھوٹے بیانیہ کو غلط ثابت کرتے ہیں، کہ بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پر آنے والے تارکینِ وطن ریاست کی مذہبی شکل کو تبدیل کرنے کے لئے وہاں آرہے ہیں تاکہ علاقے کو مسلمان اکثریت بنایا جاسکے۔ ریاست کے لوگوں نے بی جے پی کے طرف سے ہونے والی دھوکہ دہی کو محسوس کیا اور فطری طور پر ایک بہت بڑا احتجاج شروع کیا۔ تاہم آسام میں ہونے والے مظاہرے، کسی کو بھی غیرقانونی طور پر داخلے کے بعد شہریت دینے کے مخالف تھے، اور ان کا خیال ہے کہ یہ 1985 میں دستخط کیے گئے آسام معاہدوں کے خلاف تھا کہ جس کے تحت ان کی اپنی سرزمین پر مقامی گروپوں کی خودمختاری کو کچھ مراعات دی گئیں۔ اس معاہدے کا ایک حصہ غیر قانونی امیگریشن(ہجرت) کو روکنا تھا۔ آسام میں نئے شہریت ایکٹ کے خلاف ہونے والے مظاہرے ملک میں، سب سے بڑے اور سب سے زیادہ مؤثر تھے، حکومت نے بڑے پیمانے پر سنسرشپ سمیت سخت گیر اقدامات کا بھرپور جواب دیا۔ ہندوستانی عوام کو ابھی تک کوئی اندازہ نہیں ہے کہ آسام میں واقعی کیا ہو رہا ہے۔وہ رپورٹرز جو ریاست میں داخل ہو چکے ہیں وہ آسام سے آزادانہ طور پر بات چیت نہیں کرسکتے۔ پوری ریاست لاک ڈاؤن پر قائم ہے، اور یہ صورتحال ابھی تک نہیں بدلی۔
آسام میں شروع ہونے والا احتجاج جلد ہی پورے ملک میں پھیل گیا۔ یونیورسٹیاں اور کالج احتجاج کا مرکز بن چکے تھے۔ سب سے زیادہ پُرجوش احتجاج جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور جامعہ یونیورسٹی کے آس پاس، شمالی ہندوستان میں ہوا۔ حکومت نے یقینا ان مظاہروں کا جواب بھاری انداز سے دیا، پولیس کو جامعہ میں ہنگامہ آرائی کئے جانے اور مظاہروں کو روکنے کے لئے،طاقت کا استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ پولیس نے کمروں پراچانک چھاپے مارنے اور طلبا کے پرامن احتجاج کرنے پر،زخمی ہونے کے مناظرنے ملک کو لرزہ دیا اور بیشترنوجوانوں کو کارروائی کا نشانہ بنایا۔اس کی عالمی سطح پر معاشرے کی ہر پرت نے بھرپور مذمت کی۔ ہندوستان بھر کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں مظاہروں کے ڈر سے خوفزدہ رجعت پسند حکومت نے ریاست آسام کو بند کئے رکھا۔
بہت سے ابتدائی مظاہروں کی قیادت مرکزی دھارے کی بورژوا پارٹیوں نے کی، تاہم کئی احتجاج ایسے بھی تھے جس میں کسی جماعت کا بینر نہیں تھا۔ تاہم بہت سے طریقوں سے، اس تحریک کے دو اہم مرکز دہلی اور آسام کے آس پاس ہیں۔ دہلی میں شاہین باغ ان کا سب سے نمایاں مقام بن چکا ہے،جہاں پر بڑی تعداد میں خواتین کی زیرقیادت،مظاہرین احتجاجی دھرنے پر ہیں۔ مشرقی اور مغربی ہندوستان کے دوسرے میٹروپولیٹن شہروں میں بھی ایسا ہی احتجاج دیکھا گیا ہے۔کلکتہ اور بمبئی میں، دہلی کے شاہین باغ کی طرزپر، اپنے اپنے مظاہرے ہوئے۔
8 جنوری کو، احتجاج ٹریڈ یونینوں کے ذریعہ بلائی گئی عام ہڑتال کے ساتھ مزید پھیل گیا، جس میں دیکھاگیا کہ ڈھائی لاکھ کارکنان نے،مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے، نجکاری کی مخالفت کی اور اُن کے سماجی تحفظ کے خلاف حملوں کی کوشش پر اُن کے ساتھ ہڑتال میں شامل ہوئے۔
نتائج:
2011 میں، میں (ادھیراج بوس) نے لکھا تھا کہ ہندوستان ایک انقلاب سے پہلے کی صورتحال میں ہے، 9 سال بعد، ہندوستان ابھی بھی انقلاب سے پہلے کی صورتحال میں پھنسا ہوا ہے۔ سیاسی حرکیات تیز اور شدید ہیں، اور قائم قوتوں کی زمینی گرفت مسلسل کمزوری کی طرف گامزن ہے، جبکہ رجعت پسندوں کی فتح متزلزل میدان پر قائم ہے۔ اگرچہ انتخابی حرکیات، دولت اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سے دوچار ہیں، لیکن محنت کش عوام کی جدوجہد بلا روک ٹوک اپنی رفتار سے جاری ہے۔
مزدور طبقے کے رد عمل پر حملوں کے باوجود، ان کی طاقت ابھی تک پوری طرح سے ٹوٹ نہیں سکی ہے۔ ٹریڈ یونینز، اگرچہ اپنی حدود میں پھنسی نظر آتی ہیں، لیکن مزدور طبقے کے لئے جدوجہد کا ایک جزو بنی ہوئی ہیں۔ سیاسی قیادت، خاص طور پر اسٹالنسٹ جماعتیں، مزدور طبقے کی جماعتیں بنی ہوئی ہیں، لیکن وہ اپنی بیوروکریسی اور انسدادِانقلابی تشخص کی گرفت میں بُری طرح جکڑی نظر آتی ہیں، ان سے سب سے بہتر توقع یہ کی جاسکتی ہے کہ وہ محدود دفاعی جدوجہد کریں اور مرکزی دھارے میں شامل بورژوا پارٹیوں کی پشت پناہی کریں۔
بی جے پی کے عروج نے ہندوتوا کے ایجنڈے کو سنٹرل پوزیشن پر ڈال دیا ہے، جبکہ کانگریس پارٹی کو ہندوستانی بورژوازی کا ترجیحی انتخاب قرار دیا ہے۔ اس حقیقت کا کوئی واضح اشارہ نہیں ہے کہ،بی جے پی کے انتخابی مراکز میں سب سے زیادہ شراکت دار کے طور پر سامنے آنے والے ٹاٹا(Tatas) میں کتنی حقیقت ہے۔ انقلابی تحریک بنانے والے افراد کو ان سیاسی تبدیلیوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ کانگریس کے عہد کے خاتمے کے ساتھ ہی، ہم ہندوستانی تاریخ کے ایک رجعت پسنددور میں داخل ہورہے ہیں، جہاں سیکولرازم کے لئے ٹوکن رعایت بھی ختم کردی جارہی ہے۔
جیسا کہ ہم نے بی جے پی(BJP) کی سابقہ دورِ حکومت میں دیکھا ہے کہ ان کے انتہاپسند حملوں کا کوئی جواب کہیں سے نہیں آیا، تاہم ابھی بھی مقامی سطح پر انتخابی شکست کا کوئی اور وار ان کی حکومت کا خاتمہ کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ بی جے پی نے ہندوستانی جمہوریہ (Indian Republic)کے سماجی اور قانونی ڈھانچے کو ممکنہ طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یہاں تک کہ 2024 میں کانگریس کے دوبارہ انتخابات ہونے کے بعد بھی، اس بات کا امکان نہیں ہے کہ اس میں کہیں زیادہ سنگین تبدیلی ہو۔ اب جن سوالوں کو سامنے رکھا گیا ہے، انکی روشنی میں اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہندوستان میں موجود معاشرتی تضادات کے اصل نقطہ پر غور کریں اور ایک حل نکالیں، جو صرف سوشلسٹ انقلاب میں ہی مل سکتا ہے۔ انقلابی جدوجہد کی ضرورت کو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوطی اور گہرائی سے اب محسوس کیا جارہا ہے۔مگر فی الحال ابھی تک، ایک انقلابی قیادت کی عدم موجودگی ایک واضح کمی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
مودی سرکار مردہ باد! پی جے پی سرکار مردہ باد!
ہندوستانی ورکنگ کلاس زندہ باد!
ٹاٹاز، برلاس، امبانیز مردہ باد!
ایک سیکولر سوشلسٹ انڈیا اور ایک سیکولر سوشلسٹ جنوبی ایشیا کے لئے!
شہریت ایکٹ کو ردکریں! قومی شہریوں کی رجسٹریشن نا منظور!
انقلابی پارٹی تشکیل دیں! انقلاب زندہ باد!





