تحریر: ادھیراج بوس
ہندوستان کا 70 واں یوم جمہوریہ تاریخ میں بہت گہرے منفی انداز میں یاد رکھا جائے گاکہ جب ایک طرف ریاست نے بھرپور تیاری سے فوجی پریڈ شروع کی تو دوسری طرف ہزاروں کسانوں نے دہلی کے رنگ روڈ پر، احتجاج کی شکل میں ٹریکٹر ریلی نکالی۔ پولیس، جو کہ پہلے سے ہی احتجاج کی اجازت دے چکی تھی، نے کئی جگہوں پرریلی کے منتخب شدہ راستے تبدیل کردیئے، سڑکیں بند کردیں، جس سے انتشار اور افرا تفری کی صورتحال پیدا ہوگئی اور کچھ معاملات میں تشدد کے واقعات بھی سامنے آئے، اگرچہ ریلی پر امن طور پر نکالی گئی تھی۔
دوپہر کے وقت غیر معمولی مناظر دیکھنے کو ملے جب مظاہرین کاشت کاروں نے لال قلعے پر پہنچنے کے لئے راستے میں کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو توڑنے کے لئے طوفان برپا کر دیا۔ اس قلعے پر جو مغلوں کے زمانے سے،تعمیر ہے،ہندوستان میں تاریخی حیثیت اور شان و شوکت کی علامت ہے۔کسانوں نے قلعے کے پھاٹک کے سامنے دیوار پر اپنی یونینز اور سکھ نشان صاحب کا پرچم بلند کیا۔ اس تاریخی لمحے کو براہِ راست ٹی وی پر دکھایاگیا۔حکومت کی طرف سے پانی، خوراک اور رہائش تک رسائی سے انکار کی وجہ سے،ہندوستان کے بیشتر طاقتور میڈیا چینلز نے قلعے میں موجود ٹکٹوں کے کاؤنٹرز، کچھ رکاوٹوں اور قلعے کے باہر لان کی تباہی پر بہت چیخ و پکار کی اور اس کی بھرپور تشہیر کی اور اس دوران ہونے والی 150 اموات پر کسی طرح کا گھماؤ پھراؤ کرنے کے بغیر درست نشاہدہی کی۔
26 نومبر کے بعد سے، شمالی ہندوستان کے ہزاروں لاکھوں کسانوں نے فارم 3، قوانین کے خلاف احتجاج کے لئے دہلی کا رخ کیا: تجارت اورکامرس کو لیکر کسانوں کی پیداوار کیلئے (فروغ اور سہولت) ایکٹ، قیمت کی ضمانت اور فارم سروسز ایکٹ کا معاہدہ، اور ضروری اشیاء (ترمیمی ایکٹ)۔ مودی سرکار نے ان قوانین کو انتہائی غیر جمہوری طریقوں سے آگے بڑھایا، یہاں تک کہ ان کسان دشمن قوانین کو آگے بڑھانے سے پہلے ایوان بالا تک ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ وزیر اعظم، نریندر مودی، جو ‘گجرات ماڈل’ کے قیام کے لئے جانا جاتا ہے، مکمل طور پر بڑے سرمایہ داروں کی جیب میں ہے، خاص طور پر ریلائنس اور ادانیوں کے خاندانوں کے جو کہ ہر ہندوستانی جانتا ہے!لیکن حکومت کے حالیہ اقدامات، جن میں کسانوں کے خلاف3 فارم کے قوانین اور مزدوروں کے خلاف چاروں کوڈز (اجرت کوڈ، صنعتی تعلقات کوڈ، پیشہ ورانہ حفاطت،صحت اور ورکنگ شرائط کوڈ اور کوڈ برائے سوشل سکیورٹی) کا استعمال کیا جو محنت کش طبقے کے منظم اقدامات کو مشکل بنا رہے ہیں۔
اگرچہ کانگریس حکومت اکثر محنت کش طبقے اور کسانوں کو عارضی مراعات اور راحت بخشنے کے لئے عوامی مقبولیت کی نمائش کرتی ہے، لیکن اب اس حکومت کے پاس ایسی نمائش کاری کیلئے بھی کوئی ڈرامہ باقی نہیں بچا۔ مودی اور بی جے پی، تقسیم کرو اور حکمرانی کرو پر یقین رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف ہند وؤں کے دلوں میں گہری نفرتیں پیدا کرنا، اور ریاست کو مکمل جابرانہ طاقت سے عوام پرمسلط کرنا۔ مودی حکومت ایسے تمام رجعت پسند ایجنڈے رکھنے کے باوجودبڑے سرمایہ داروں کی محبت میں سستی محنت اور ہندوستان کے قدرتی اور انسانی وسیع وسائل پر قابو پانے کے لئے اب بھی بھوکی ہے۔ اب بھی وزیر اعظم آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کی مکمل مدد سے پورے ہندوستان میں ‘گجرات ماڈل’ کو نافذ کررہاہے۔ حکومت کا ایجنڈا لوگوں کی فلاح و بہبود کی آڑمیں ہندوستان کے تمام شعبوں کو مغربی سرمایہ داروں، ریلائنس اور امبانی خاندان کیلئے کھولنا ہے۔ جس کے نتیجے میں مزدور’چار لیبر کوڈز‘ کے نفاذ ، اورکسان تین فارم کے قوانین کا شکار ہوں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی کی حکومت نہ صرف اپنے ایجنڈے میں شیطانی ہے، بلکہ ان ایجنڈوں کو عوام پر مسلط کرنے کے معاملے میں بھی اتنی ہی شیطانی نظر آتی ہے۔ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہرے سامنے آنے کے بعد، ہم نے پولیس کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طوفان برپا کرتے ہوئے دیکھا کہ کس طرح پولیس نے طلبا پر حملہ کرنے کا ایک نیا اندازاپنایا۔ وہ تحریک ابھی ختم نہیں ہوئی کہ اب وہی طریقہ کار ان کاشتکاروں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے جو بیشتر طریقوں سے پر امن طور پر احتجاج کررہے ہیں۔ جو بھی شورش پربا ہوئی وہ تحریک کے اندر موجود اشتعال انگیزوں اور ایجنٹوں کا کام تھایا پولیس تشدد کے رد عمل کے طور پر سامنے آئی۔ ہمیں ہر صورت اس تحریک کو اپنی غیر مشروط حمایت دینی چاہئے تاہم ہمیں اس کے کردار اور حدود کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
تین قوانین:
ہمارے لیے ’فارم قوانین‘ کو سمجھنے کیلئے پہلے ان کے پیچھے چھپے مقاصد کو سمجھنا ضروری ہے۔ امریکہ اور چین کے بعد، ہندوستان دنیا میں تیسرا سب سے بڑا زرعی اجناس تیار کرنے والا ملک ہے۔ 1960 کی دہائی میں وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے ذریعہ نام نہاد ‘سبز انقلاب’ کا آغاز ہوا اور اندرا گاندھی کے توسط سے آگے تک جاری رہا،اس عمل نے ہندوستان کو زراعت میں خود کفیل بنا دیا اور دیہی علاقوں میں اب تک کی ایک بہت بڑی غیر استعمال شدہ استعداد کے لئے راہ ہموار کی۔ اس نے چھوٹے اور پسماندہ کاشتکاروں پر بڑے زمیندارکسانوں کی برتری کیلئے گراؤنڈ بھی تیار کیاجس سے کھیتی باڑی کے غیر مستحکم نمونہ کا آغاز ہوا جو آج ہندوستان کی زراعت میں اہم سمجھا جاتا ہے۔
ہندوستان نے 1960-70 ء کی دہائی کی اصلاحات کے بعد،بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں ہونے والی ترقی کے باوجود کھیتی کے شعبے میں غربت اور جمود ہی نظر آیا۔ اس دوران، کسانوں کی طرف سے کی جانے والی خودکشیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوناشروع ہوا۔1995میں، تقریباً تین لاکھ کسانوں نے خودکشی کی، جن کی گنتی صرف اسی ایک سال میں کی گئی، اور یہ تعدادایک قیاس پر مبنی ہے، یقیناحقیقت میں یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو گی۔ اور یہ سب اعدادو شمارہمیں اُن لوگوں کی بڑی تعداد کے بارے میں نہیں بتاتے جنھیں اُس وقت کھیتی باڑی چھوڑنی پڑی تھی کیونکہ اُن کا زراعت سے منسلک رہنا مشکل ہو گیا تھا۔اُنھوں نے زندہ رہنے کیلئے یا تو بڑے فارمز میں اپنی محنت بیچی یا شہروں میں آکر کھلی مزدوری کی۔ زمین رکھنے والے کسانوں کا بے زمین پرولتاریہ میں تبدیل ہونا ہی بنیادوی طور پر پرولتارائیشن ہے۔یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے ہر سرمایہ دارانہ ملک گزر چکا ہے یا گزر رہا ہے۔ ہندوستان اس وقت کہیں زیادہ تیز رفتاری سے اس ظالم دور سے گذر رہا ہے۔
1991 سے نیو لبرل پالیسیوں کی ترقی کے دور نے زرعی شعبے کی معیشت کا حصہ کم کر کے 15 فیصد تک کر دیا، تاہم اس شعبے میں اب بھی ہندوستان کی تقریبا 60 فیصد افرادی قوت بلواسطہ یا بلاواسطہ منسلک ہے۔ یہ کہنا قطعی غلط نہیں ہے کہ ہندوستان ایک زرعی ملک ہے، تاہم یہ بات بالکل واضح ہے کہ زراعت ہندوستان کی سرمایہ دارانہ معیشت کو نہیں چلاتی۔بلکہ خدمت عامہ اور صنعتی شعبے ہندوستان کی معیشت کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ٹیلی کمیونیکیشنز، آئی ٹی اور فنانس ہندوستان کی خدمت کے شعبے کی معیشت کا بنیادی مرکز ہیں۔ یہیں سے ہندوستان کے چند بڑے بڑے امراء حکومت میں کردار ادا کرتے ہیں۔ ٹاٹا، ریلائنس گروپ، اور نیا ابھرتا ہوا ادانی، زرعی مصنوعات کی پرچون فروشی پر نگاہ ڈالے بیٹھے ہیں، ہم اس وضاحت میں واضح دیکھ رہے ہیں کہ وہ کون ہیں جن کا ہندوستان کے فارم سیکٹر پر قبضہ کرنے میں ذاتی مفاد ہے۔ صنعت، خزانہ اور خدمات کے شعبوں میں پہلے ہی بڑے پیمانے پر بڑے سرمایہ داروں کی گرفت مستحکم ہوچکی ہے،اور اب انہوں نے زراعت پر نگاہ رکھی ہوئی ہے۔
ایسے حالات میں ’فارم قوانین‘ کا اہم کردار ہے۔ کانگریس کی زیرِقیادت یو پی اے(UPA) یوناٹیڈ پروگرسیو الائنس کے پلیٹ فارم سے پچھلی حکومت نے بھی اسی طرح کی اصلاحات کے امکانات کی جستجو کی تھی جسکا مقصد میگا کارپوریشنز کے ذریعے زراعت کے شعبے میں دخل اندازی کرنا تھا۔ ابھی تک، جو خرید و فروخت کا نظام موجود ہے، اس کیلئے کاشتکاروں کو اپنی فصلیں حکومت کی قائم کردہ مارکیٹنگ کمیٹیوں کے نامزد مارکیٹنگ بورڈز پر فروخت کرنی ہوتی ہیں۔ جسے ‘منڈیاں ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان منڈیوں میں اناج کی خریداری کے لئے ایک مقررہ قیمت کی ضمانت دی گئی ہے اور ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ فروخت کی قیمت زیادہ اونچی سطح تک نہ پہنچ پائے۔-70 1960 ء کی دہائی کے دوران ہندوستان بھر میں بیشتر ریاستوں نے اناج کی خرید داری کیلئے یہ ماڈل اپنایا تھا۔جس سے کسانوں میں کسی حد تک استحکام پیدا ہوا اور صارفین کی سیکیورٹی کو بھی یقینی بنایا گیا۔ تاہم، یہ کسی بھی لحاظ سے ایک مثالی نظام نہیں تھا۔ منڈیوں کے نظم و نسق میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور کاشتکاری کے سامان کی تجارت پر اجارہ داری نے آخر کار کسانوں کو تکلیف میں ڈال دیا۔ مزید برآں اس قانون نے بھی بڑھتے ہوئے اخراجات کے مقابلے میں زراعت کو برقرار رکھنے کے لئے کم سے کم امدادی قیمت کی فراہمی کو یقینی نہیں بنایا۔ کچھ منڈیوں کے آس پاس کارٹلائزیشن (تجارتی اتحاد)کے وجود سے کسانوں کی مشکلات اور بڑھ گئیں۔
برسوں سے، ہندوستان بھر کے کسان ملک بھر میں کم سے کم امدادی قیمت کے اعلان کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، 2017 اور 2018 میں احتجاج بھی ہوئے لیکن فائدہ نہیں ہوا۔پھر حکومت نے کسانوں کے مطالبے کے سوال کا ایک ایسا ‘حل’ نکالا، جو پُرامید کسانوں کے منہ پر طمانچہ کے طور پر نمودار ہوا۔ یہ یقینا کوئی حل نہیں تھا۔ 2006 میں ریاست بہار نے سرمایہ داروں کو راغب کرنے کی غرض سے زرعی شعبے سے منڈی کے نظام کو ختم کردیااور یہ عذر پیش کیا گیا کہ کسانوں کی زندگی کو بہتر بنایا جائے گا۔لیکن نہ ہی سرمایہ کاری آئی اور نہ کسانوں کی زندگیاں بہتر ہو ئیں بلکہ مزید پستی کا شکار ہوئیں۔ اب چونکہ انکے پاس محفوط قیمت پر اپنی پیداوار بیچنے کیلئے کوئی منڈی نہیں تھی، لہذا وہ غربت میں پڑ گئے یا کہیں اور کام تلاش کرنے کیلئے اپنا گھر باہر چھوڑ گئے۔ریاست بہار میں زراعت زوال کی حالت میں ہے۔ اب بجا طور پرکسانوں کو یہ خوف ہے کہ ملک کے دیگر حصوں کا بھی یہی حال نہ ہو۔
یہ تینوں ’فارم لاز‘ وبائی مرض(کورونا) کے درمیان 17 ستمبر 2020 کو پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے۔ حکومت نے محسوس کیا کہ یہ شاید زراعت کے شعبے میں اصلاحات اور رجعت پسند لیبر کوڈزکو آگے بڑھانے کا بہترین وقت ہے، ہندوستان کے بیشتر شہروں میں وبائی مرض کی وجہ سے لاک ڈاؤن کرتے ہوئے شائد یہ سوچا گیا تھا کہ عوام احتجاج کرنے کا اہتمام نہیں کرسکیں گے۔ ان قوانین کے خلاف ایوان بالا میں بغیر ووٹوں کے قوانین منظور ہوئے، اور اسپیکرکو براہ راست ٹی وی پر دیکھا گیا جب وہ اپوزیشن کو،قوانین کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے پر خاموش کروارہا تھا۔ اپوزیشن فارم قوانین کے خلاف واک آؤٹ کر گئی، جس سے حکومت لیبر کوڈ کو متفقہ طور پر پاس کرنے پر مجبور ہوگئی۔ جمہوریت کے اس مذاق کو پورے ملک نے براہ راست ٹی وی پر دیکھا۔
اس حکومتی عمل کے خلاف فوری طور پر رد عمل سامنے آیااور ملک بھر میں کسانوں کے احتجاج شروع ہوگئے۔ کسانوں نے وبائی مرض اور انسداد کوڈ کی تمام پابندیوں کے باوجود، اس عمل کے خلاف منظم ہونا شروع کردیا۔ بہت سارے کاشتکار یہ کہتے ہوئے حکومت کی دھجیاں اڑا رہے تھے کہ وہ وبائی مرض کے دوران بہار کے انتخابات توکروا سکتی ہے پر کسانوں کے احتجاج پر پابندی لگا رہی ہے، کیونکہ حکومت کرنے والے منافق ہیں اور وہ یقینادرست تھے، کسانوں کے خلاف عائد پابندیوں کا وبائی مرض سے کوئی سروکار نہیں تھا، وہ صرف بڑے سرمایہ داروں کے مفادات کے دفاع میں کام کر رہے تھے۔
اس کے پیش نظر، یہ’فارم لاز‘ اور ان میں لائی جانے والی اصلاحات کا مقصد ایم ایس سوامیاتھن کمیٹی (قومی کمیشن برائے کسان (این سی ایف) ایک ہندوستانی کمیشن ہے جو 18 نومبر 2004 کو پروفیسر ایم ایس سوامیاتھن کی سربراہی میں بھارتی کسانوں کی ملک گیر خود کشیوں سے نمٹنے کے لئے بنایا گیا تھا)کی سفارشات کو عملی جامہ پہنانا ہے جو سابقہ کانگریس کی زیر قیادت حکومت نے قائم کیا تھا۔ کسانوں کی پیداوار اور تجارت (فروغ اور سہولت) ایکٹ، 2020۔ حکومت کا دعوی ہے کہ اس ایکٹ سے کاشتکاروں کو فائدہ ہوگا کیونکہ اس سے انہیں ’ریاستی حدود سے قطع نظر اور منڈی کے نظام کے دائرہ کار سے باہر تجارت کی اجازت ہوگی‘۔ مؤثر طریقے سے، اس ایکٹ سے پوری طرح سے منڈیوں کا خاتمہ ہوتا ہے، اور کارپوریشنزکے لئے اناج کی تجارت پر اجارہ داری قائم کرنے کیلئے میدان کھل جاتا ہے۔ یہ پہلو یقینا حکومت نے سبوتاژ کیا ہے جس سے ریاستی ٹیکسوں کے خاتمہ کی طرف زیادہ اشارے ملتے ہیں۔ سچائی یہ ہے حکومت کے نہ صرف کارپوریشنز کیلئے زراعت پر قبضہ کرنے کا میدان کھول دیا ہے بلکہ کسان بڑے سرمایہ داروں کے مفادات سے غیر مساوی مسابقت کی طرف جاتا ہے۔ سرمایہ داری کی حکومت پہلی حکومتوں کی طرح بنیادی ریاستی انفراسٹرکچر میں اربوں کی سرمایہ کاری کرنے کا دعوی کرتی نظر آتی ہے۔ حکومت یہ دعویٰ کر تی ہے کہ اس ایکٹ،سوامیاتھن رپورٹ میں ”ایک مارکیٹ” کا تصور دیا گیا ہے لیکن حقیقت میں یہ کسان مخالف اورچندحکومت حامی کارپوریشنز کا ورژن ہے۔
اس ایکٹ کی دفعہ 13 کی شقوں میں اس کے بنا نے والوں کی نیت اور زیادہ واضح نظر آتی ہے جو اناج کی خریداری میں مرکزی حکومت کو ایک مکمل قوتِ استثنیٰ فراہم کرتی ہے۔: ”مرکزی یا ریاستی حکومت، یا مرکزی اور ریاستی حکومت کے کسی بھی افسر یا کسی بھی دوسرے شخص کے خلاف جو اپنی طرف سے،نیک نیتی سے اس ایکٹ پر عمل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اس کے خلاف کوئی مقدمہ، استغاثہ یا دیگر قانونی کارروائی نہیں ہوگی۔
اسی طرح کاشتکاری کا معاملہ،پرائس انشورنس اور فارم سروسز ایکٹ 2020 کسان کی (بااختیاری اور تحفظ) معاہدے سے متعلق ہے۔ دفعہ 19 کے تحت عدالتوں کے دائرہ اختیار پر ایک پابندی عائد کی گئی ہے: ”کسی بھی سول عدالت کو کسی بھی تنازع کے متعلق کوئی مقدمہ یا کاروائی کو ڈیل کرنے کا دائرہ اختیار نہیں ہوگا۔ ایک سب ڈویژنل اتھارٹی یا اپیلٹ اتھارٹی کو اس ایکٹ کے ذریعے یا اس کے تحت فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔اور کسی عدالت یا دوسری اتھارٹی کے ذریعہ کوئی حکم امتناعی منظور نہیں کیا جائے گا۔ یہ دونوں حرکات حتمی طور پر حکومت کو جانچ پڑتال سے بچانے کے لئے کام کرتی ہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں اور ہم اس بات کا یقین کر تے ہیں کہ ان کا مقصد اپنے قریبی احباب کو فائدہ پہنچانا ہے۔ یہ نام نہادبااختیاری ایکٹ کاشتکاری کو کبھی بھی فروغ نہیں دے گا۔ بغیر کسی ضابطے کا حوالہ دیئے، بس تجارت پر قابو پانے کی کوشش کرنے والی بڑی کارپوریشنزکے فائدے کیلئے90 فیصد انتہائی کمزور کاشتکاروں کو زراعت سے نکال کر نیچے پھینک دیا جائے گا۔
تینوں ایکٹ میں سے آخری میں ضروری اجناس کے ایکٹ میں ترمیم کی گئی ہے۔موجودہ قانون میں ضروری اجناس کی ایک فہرست موجود ہے جس پر ‘لازمی’ درج ہے کہ ذخیرہ اندوزی پر پابندی اور قیمتوں کی حدودطے ہیں اور اب لاگو کئے گئے موجودہ قانون نے قحط یا بڑی آفات کو چھوڑ کر، قیمت کی حد میں اضافہ اور ذخیرہ اندوزی کی حدوں کو ختم کردیا ہے۔ تاہم، قیمت کی حدیں غیر حقیقی طور پر زیادہ ہیں۔ یقینا ان حدود سے لبرلائزیشن کی تجارت کو آسان بنانا مقصود ہے، لیکن دو دیگر کارروائیوں (ایکٹ) کے ساتھ، اس سے بڑے پیمانے پر بڑے کاروبار کو تب فائدہ ہوگا جب کاشتکار کو کوئی فائدہ ہوگا۔ ذخیرہ اندوزی کی کمزور حدیں ضروری اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کے حالات بھی پیدا کرسکتی ہیں جو بالآخر صارفین کو تکلیف پہنچاتی ہیں۔ لہذا ایک ہی جھٹکے میں، سرمایہ داروں کی حکومت نے شہر میں مزدور اور دیہی علاقوں میں کسان دونوں پر حملہ کرنے کی تیاری کرلی ہے۔
دیہی ہندوستان میں بحران:
پچھلے دس سالوں سے ہندوستانی سیاست اور معیشت کا مشاہدہ کرنے والوں کیلئے، یہ کہنا حیرت کی بات نہیں کہ ہندوستانی زراعت میں کوئی بحران موجود ہے۔کسانوں کی خودکشیاں اور دیہی علاقوں میں غربت میں اضافے کے ساتھ ہی اناج کی پیداوار میں بڑھوتی، اور خود کفالت کی کامیابیوں نے آہستہ آہستہ مایوسی اور موت کی صورتحال کو جنم دیا ہے۔ قومی سروے اتھارٹی این ایس ایس او کے مطابق تمام شہری خاندانوں میں سے آدھے بے زمین تھے، اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے دس میں سے ایک بے گھر تھا۔ دوسروں کے مقابلے میں کچھ ریاستوں جیسے ’تمل ناڈو‘ میں شرع اس سے کہیں زیادہ ہے۔وہاں صورتحال معروضی طور پر خراب ہے جہاں کبھی بھی زمینی اصلاحات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا، جس میں ہندوستان کے بیشتر حصے شامل ہیں۔
ان کی تعداد واضح نہیں ہے کیونکہ حکومتی اعدادوشمار میں بے زمین لوگوں کی تعداد کی کوئی گنتی نہیں لیکن ایک ذریعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں تقریبا 442 ملین افراد بے زمین ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تین میں سے ایک ہندوستانی بغیر زمین کے ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد جن کے پاس بہت محدود ذرائع ہیں اور وہ خطِ غربت کے نیچے رہتے ہیں۔ این ایس ایس او کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ دیہی ہندوستان میں اوسطاً زمینداری حیران کن شرع تک کم ہوئی ہے، جو فی خاندان 1.53 ہیکٹر سے اب ہر خاندان میں 0.59 ہیکٹر ہوگئی ہے۔
اس کا مطلب زرعت کے شعبے کیلئے ضروری ہے کہ کسان اب زمین کے سکڑتے ہوئے پلاٹوں پر پیدا وار بڑھائیں۔ بلاشبہ یہ تباہی کا ایک نسخہ ہے، کیونکہ محدود پیداواری طاقتوں والے چھوٹے کمزور کسانوں کو بڑے کاشتکاروں اور کارپوریٹ فارمنگ سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے، جو کہ ناممکن ہے۔ مزید یہ کہ اناج کی تجارت میں کارٹلائزیشن(تجارتی اتحاد) کی وجہ سے، ایک پہلے سے ہی غریب کاشتکار مزید خطرے سے دوچار ہو جاتاہے، جہاں پھر وہ کھیتی باڑی چھوڑنے اور مزدوری کرنے پر مجبور ہوجاتاہے۔بے زمین مزدور کی حیثیت سے، ان کی زندگی دوسرے شعبوں کے محنت کشوں کی نسبت اور زیادہ خراب ہوتی ہے، کیونکہ وہ دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، اس پریشانی میں مزید اضافہ کرنے کے لئے، کاشتکاری کی غیر مستحکم اصلاحات کو”سبز انقلاب” کی مد میں فروغ دیا گیا۔جس کے بعد فصلوں کی اجارہ داری کو فروغ ملا۔ ان حالات میں، آپ کے پاس غریب کسان ہیں، جن پر قرضوں کا بوجھ ہے، انھوں نے اپنے کنبے کو برقرار رکھنے کے لئے چھوٹی چھوٹی زمینوں پر انحصار کرنا ہے، اور بڑے کاشت کاروں اور کارپوریشنز کے ساتھ اسٹوریج اور نقل و حمل کے بڑے پیمانے پر موجود انفراسٹرکچر کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے، جبکہ زراعت کی عدم مساوات کو بھی آگے بڑھانا ہے۔ مارکیٹ اور بدعنوانی سے نمٹنے کے ہندوستانی سرمایہ داری نے کسان کے خلاف ہر طرح سے اس کھیل میں دھاندلی کی ہے۔
اس بدعنوانی کے کھیل کو ختم کرنے کے لئے، ان ٹھیکیداروں میں سے کسی ایک کی بھی حمایت کی کوئی ضمانت نہیں جس کا مطالبہ کسان برسوں سے کررہے ہیں۔ حکومت بغیر ضروری حفاظتی سامان فراہم کئے کھیتی باڑی کا شعبہ کھولتی اور پابندی لگاتی ہے۔
ہندوستانی زراعت کے بحران کی تصدیق کئی عوامل سے کی جاسکتی ہے، لیکن اسکا سب سے زیادہ واضح نقطہ یہ ہے کہ یہ زمین ہے! زمین کا مستقل ٹکراؤ، اور لینڈ ہولڈنگ کی پسماندگی، جبکہ بڑی کارپوریشنز’کارپوریٹ فارمنگ’ کے لئے زیادہ سے زیادہ زرخیز زمین چنتی ہیں جوکسانوں کو نچوڑ لیتی ہے اور انہیں سماجی،معاشی اور نفسیاتی طور پر کہیں زیادہ بے سہارا اور کمزورر پرت کی صف میں کھڑا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ بہت سارے لوگ جو بے دخلی کی یہ ذلت برداشت نہیں کرسکتے وہ اسی طرح اذیت زدہ زندگی بسر کرنے کی بجائے کسی دوسرے شعبے کے سہارے زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں۔اور ایسے کسانوں کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی جارہی ہے۔
حکومتی سطح پر بہت اطمینان سے یقین دلایا گیاکہ یہ زرعی قوانین بے زمین اور خود کشی کرنے والے کسانوں کی تعداد میں بہتری لانے کے لئے بہت کچھ کریں گے،جو اپنی روزی روٹی کو برقرار نہیں رکھ سکے، لیکن حقیقت میں یہ ٹاٹا، امبانی اور ادانیوں کو خوش کرنا ہے۔ مودی مطمئن ہے اور اس سے آگے کی نہیں سوچ رہا۔
پرولتاریہ:
بورژوازی ہماری طرف ایک انتہائی مثبت آواز سنانے والی خوش بخت ’شہرداری کی طرح آتی ہے۔ اور ایک منصفانہ نظام کی خیالی تصویر پیش کرتی ہے جہاں شہری زندگی کے ’فوائد‘سے لوگوں کی زندگیاں خودبخود بہتر ہوجاتی ہیں۔ سرمایہ داری، پرولتاریہ کی تلخ حقیقت کو چھپانے کے لئے، دیہی علاقوں کی زندگی سے، شہروں میں زندگی کی تبدیلی جیسے فرضی ڈھکوسلوں سے ڈھانپ کر دھوکہ دیتی ہے۔
ہم نہ صرف پرولتاریہ جن کے پاس اُن کی محنت کی طاقت کے سوا کچھ نہیں بلکہ کسانوں، چھوٹے سرمایہ داروں، چھوٹی چھوٹی جائیداد کے مالکان کی پرتوں کی تباہی، ان کی مستقل غربت اور پسماندگی کو بھی اپنے پروگرام کاحصہ گرداتنے ہیں۔
سرمایہ دار طبقہ،کسانوں اور مڈل کلاس/ چھوٹی سرمایہ داری کو منتشر اور بکھرے ہوئے طبقے کی طاقت کو کم یا ختم کرنے کے لئے کام کرتا ہے جو مستقل طور پر بڑے سرمایہ داروں کو تقویت بخشتا ہے۔ سرمایہ داری کے یہ سب حربے محنت کش طبقے کو توڑنے اور استحصال کے مقصد کو پورا کرنے کے عمل میں کارگر ثابت ہوتے ہیں۔
ہندوستان سرمایہ دارانہ دنیاکیلئے سب سے بڑے انسانی وسائل کے ساتھ منفرد جانا جاتا ہے۔اور در حقیقت اسی کو سرمایہ داری میں ’ڈیموگرافک ڈویڈنڈ‘کہا جاتاہے، کہ اس کے ذریعے اب ہندوستانی سرمایہ داروں کے پاس محنت کشوں کا استحصال کرنے کا ایک وسیع اور سود مند طریقہ باقی رہ گیاہے، جس میں اب کھیتی باڑی اور چھوٹی تجارت کر نے والا محنت کش اپنے’آخری انجام’ میں پھنس چکاہے۔ ہندوستان کے ارب پتی افراد صرف اس وجہ سے امیر ہوئے ہیں کہ وہ اس وسیع بازار میں داخل ہوسکے ہیں، اور بورژوا ریاست کا استعمال کرتے ہوئے یہ یقینی بناتے ہیں کہ وہ بیرونی مقابلہ سے محفوظ رہیں۔ امبانیوں کی خوش قسمتی،ٹاٹا اور اب ادانیوں کی دولت آزاد خیال کانگریس دور کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ جس کے نتیجے میں 8.5 ملین کسانوں نے کھیتی باڑی چھوڑ دی ہے، جبکہ ہندوستان میں بے زمین غریبوں کی تعداد میں 37.5 ملین کا اضافہ ہوا ہے۔
تاریخی طور پر، ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک اٹھار ویں اور انیسویں صدی کے آخر میں اس عمل سے گزر چکے ہیں، کچھ کو اس کی تکمیل کے لئے 20 ویں صدی تک انتظار کرنا پڑا، جیسے امریکہ کے ہاتھ معاشی بحران کے بعد ایک عظیم جنوبی مرکزی علاقہ لگا تھا۔ ہر معاملے میں طریقہ کار ایک جیسا تھا، محنت کشوں اور مڈل کلاس / چھوٹے سرمایہ داری کی تباہی اور بڑے سرمایہ داروں کو نوازنا۔اس وقت انڈیا میں یہ طریقہ کار شدومد سے جاری ہے۔ محنت کشوں اور چھوٹی سرمایہ داری کو تباہ کرتے ہوئے بڑے سرمایہ داروں کو ہر طرح کی مراعات دی جا رہی ہیں۔
اسی دوران، وسطی ہندوستان کے پہاڑی علاقوں میں جہاں کرپٹ عہدیداروں، متشدد پولیس فورس اور نیم فوجی دستوں کی زبردست ملی بھگت سے مقامی آبادی کو اپنی سرزمین سے بے دخل کیا جارہا ہے تاکہ کان کنی کی کارپوریشنز کی زمینوں پر قبضہ کرسکیں۔بے شک مقامی آبادی کو بے روزگاروں کی ریزرو فوج کی صفوں میں شامل کیا جائے گا۔ بیروزگاروں کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی سرمائے کیلئے کم اجرت دینا اتنا ہی آسان ہو گاکیونکہ سرمایہ داروں کی سستی لیبر کی مانگ جس حد تک بڑھ چکی ہے اس سے کہیں زیادہ تیزی سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔
پرولتاریہ کی بڑھتی تعداد نے، ہندوستان کو سستی لیبر کی تیاری اور خدمات کا مرکز بننے میں مدد فراہم کی ہے، اور ایک وسیع و عریض داخلی منڈی تشکیل دی ہے جو جارحانہ طور پر سرمایہ دارانہ توسیع کو طاقت بخشتی ہے۔ اوریہ طاقت مزدوروں اور باقی محنت کشوں کی محنت کے عوض حاصل ہوتی ہے۔ لہذا یہ فطری بات ہے کہ کسان کسی ایسے ایجنڈے کو چیلنج کرنے کے لئے سڑکوں پر نکلیں گے جس کا مقصد ایک طبقے کے طور پر باقی پرتوں سے مل کر جدوجہد کرنا ہو گا۔
کسانوں کا آج کا احتجاج:
اس سے پہلے بھی ’شہریت ترمیمی ایکٹ‘ کے خلاف مظاہروں کی طرح، آج کاکسانوں کا احتجاج بھی اپنے استحکام میں منفرد رہا ہے۔ 30 نومبر کو احتجاج پربیٹھنے کے بعد سے اب تک، انہوں نے دہلی کی سرحدیں نہیں چھوڑیں۔ کسانوں نے دہلی کی شاہراہوں کو روکنے کے لئے ملک بھر میں ٹریکٹر ریلیاں نکالیں۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ موجودہ احتجاج ملک بھر کے کسانوں کی طرف سے اس سے قبل متعدد مظاہروں کی زد میں آچکا ہے، کچھ علاقائی / مقامی ریاستی سطح کے مطالبات کے لئے، اور دوسرے قومی مطالبات جیسے کم سے کم امدادی قیمت پر عملدرآمد کیلئے۔ کسان اس بار’تین فارم لاز‘کو زبردستی منظور کرنے پر مشتعل ہوگئے، جس پر اُن کی طرف سے فوری طور پر رد عمل ہوا۔ یہ ان کاشتکاروں پر آخری تنکا تھا جو کئی دہائیوں کی غربت اور پسماندگی کا شکار ہیں،اور اب وہ مزید برداشت نہیں کریں گے۔
26 نومبر کو، کسانوں کے احتجاج نے ہندوستان بھر کے ورکرز کے ذریعہ بلائی گئی عام ہڑتال کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔ کسان اور مزدور دونوں ہی ایک دوسرے کے مطالبات کی حمایت کرتے ہیں، ٹریڈ یونین کی ہڑتال،حکومت کے قائم کردہ چار لیبر کوڈ زکو واپس لینے کے مطالبے کے لئے بلائی گئی تھی، جبکہ کسانوں نے فارم کے تینوں قوانین کی منسوخی کے لئے احتجاج کیا تھا۔ اس دن کی طویل ہڑتال میں ایک ارب آبادی کے چوتھائی حصے نے شرکت کی، اور اس ہڑتال نے دہلی میں موجودہ مظاہروں کی شکل اختیار کرنے کی منزلیں طے کیں۔
30 نومبر کو، تقریبا ًدو لاکھ کسان دہلی کی شاہراہوں پر احتجاج کے لئے بیٹھے۔ حکومت ہر کوشش کے باوجود انہیں احتجاجی مقام سے بے دخل نہیں کرسکی۔ وہ اب بھی وہاں موجود ہیں،اور ان جبری نافذ کئے گئے قوانین کے خاتمے کو دیکھنے کے اپنے عزم پر قائم ہیں۔جاری احتجاج کی قیادت کسی سیاسی جماعت کی طرف سے نہیں، بلکہ کسانوں کی تحریک کے اندر ہی ان کی یونینز کی سربراہی میں آرہی ہے۔ تمام کسان یونینز ایک چھتری تنظیم ‘مشترکہ کسان مورچہ،کے زیرِ سایہ آ چکی ہیں۔ ملک بھر میں مظاہروں کی بڑی تعداد دیکھنے میں آئی ہے، تاہم یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پنجاب اور ہریانہ کے کسان ان مظاہروں کی زد میں ہیں۔ اگرچہ بہت ساری اپوزیشن جماعتیں کسانوں کی حمایت میں سامنے آچکی ہیں، لیکن وہ زیادہ تر منافع بخش وجوہات کی بنا پر ایسا کرتی ہیں، ہندوستان کی کسی بھی بورژوا پارٹی، حتی کہ اسٹالننسٹ پارٹیاں بھی ہندوستان میں پرولتاریہ کے مارچ کے دوران سفاکانہ رکاوٹیوں کی عملی مذمت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہندوستان میں بائیں محاذ کی حکومت نے زمینی اصلاحات کے ذریعے کچھ ابتدائی فوائد حاصل کرنے کے بعد، صنعتی سرمائے کے حق میں کسانوں کی طرف سے منہ موڑ لیا، جب انہوں نے سنگور میں ٹاٹاز کے کہنے پر زبردستی زمین حاصل کرنے کی کوشش کی۔اور پھر اس کے خلاف بھرپور احتجاج برپا ہونے کی وجہ سے بنگال میں اسٹالینسٹوں کا زوال اور پورے ہندوستان سے ان کی سیاسی طاقت کا خاتمہ ہوا۔
اس طرح، یہ کہنا مبالغہ آمیز نہیں کہ بھارت میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے کسانوں اور سب سے زیادہ،ملک کی بڑی آبادی کی نظر میں اپنی ساکھ کھو دی ہے۔ کسانوں نے بھی ان پارٹیوں سے دور رہ کر اپنے بدن پر کوئی نہیں داغ نہیں لگنے دیا۔ بی جے پی کی طرف سے بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈے کے باوجود جس نے ان مظاہروں کو کئی طرح سے اپوزیشن کی جھولی میں ڈالنے کی بھرپور کوشش کی۔ان کی کوئی ان کی کوئی ترکیب بھی کسانوں یا وسیع تر آبادی کو ان سے ہمدردی رکھنے پر قائل نہیں کر سکی۔
تاہم، کسانوں کی اپنی کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے، ٹریڈ یونین تنظیم میں کیڈر پر مبنی نظم و ضبط، عہدے اور منظم تنظیم کا فقدان ہے۔ یوم جمہوریہ ٹریکٹر پریڈ کے دوران، تنظیم میں کمزوریوں کو واضع طور پر دیکھا گیا، جہاں پولیس اور اشتعال انگیز افراد کسانوں کی صفوں میں انتشار اور افراتفربی پیدا کررہے تھے اور انہیں تشد آمیزرویے پر اُکسارہے تھے۔ اس کے باوجود، مظاہرین مارچ کے بیشترو وقت قابل ذکر نظم و ضبط ہی میں نظر آئے اور انہوں نے حکام کے خلاف توڑ پھوڑ یا انتشار پھیلانے وا لی کارروائیوں سے زیادہ تر اجتناب کیا۔
کسانوں کا واضح سیاسی مطالبہ ہے، جو ایک بار پھر تینوں فارم لاز کے خاتمے کے فوری مطالبات تک محدود ہے۔ لیکن اس احتجاج کا دائرہ بھی محدود ہے۔ اگرچہ احتجاج کرنے والے زیادہ تر کسان چھوٹے اور معمولی کاشت کار ہیں، لیکن ان میں بہت بڑی بڑی زمینوں والے کسان بھی ہیں۔ پنجاب اور ہریانہ کی ریاستیں اپنے پیداواری کاشتکاری کے شعبوں کے لئے مشہور ہیں، اور عام طور پر اس خطے کے کسان زیادہ بہتر کام کرتے ہیں، اور وہ مشرقی ہندوستان، بنیادی طور پر بہار سے آنے والے تارکینِ وطن کو بڑی تعداد میں زرعی مزدوروں کی صورت میں ملازمت دیتے ہیں۔ یہاں ایک بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ جو بھی زراعت میں ملازمت کرے یا (بلواسطہ یا بلا واسطہ) زراعت پر انحصار کرتا ہے وہ ان قوانین کا شکار ہوگا، اور اس سے لڑنے کے لئے اتحاد کی ضرورت ہوگی، تاہم بے زمین اور زرعی مزدوروں کے خاص مطالبات کو زیادہ توجہ سے نہیں سنا جارہا۔ ہم اُن کی طرف سے کسی بھی طرح کے، زمینی اصلاحات کے مطالبات کے بارے میں نہیں سنتے، نہ ہی دیہی ورکرز کو منظم کرنے کے لئے کوئی مطالبہ سامنے آیا ہے۔ پوری توجہ صرف فارم کے تینوں قوانین کو ختم کرنے پر ہے۔
کسانوں کا احتجاج بنیادی طور پر دفاعی نوعیت کاہے، فارم کے تینوں قوانین کو منسوخ کرنے سے معاملات اسی طرف نسبتاًلوٹ آئیں گے جس طرح کسان پہلے تھے مگر اس کے باوجود کسانوں کو پرانی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ سوامی ناتھن کمیٹی کے نفاذ سے دیہی علاقوں میں زمینوں کی ملکیت میں بڑے پیمانے پر عدم مساوات کو دور نہیں کیا جاسکے گا، ایک ایسا کام جو ملک بھر میں بڑے پیمانے پر زمینی اصلاحات کے ذریعے ہی انجام پا سکتاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُن تارکین ِوطن کارکنوں کے تحفظات کا مطالبہ بھی ہونا چاہئے، جن کی محنت نے شمالی ہندوستان کے دیہی علاقوں میں خوشحالی کی ہے اور جو ابھی تک مصائب میں ہیں۔
ان تمام کوتاہیوں کے باوجود، کسانوں کا احتجاج ایک مستحکم احتجاج ہے، اور یہ حالیہ تاریخ میں ہم نے دیکھا ہے کہ یہ تحریک آخری چند دہائیوں کی سب سے زیادہ پائیدار تحریک ثابت ہوئی ہے۔ اس کی وجوہات یہ ہیں کیونکہ احتجاج میں شامل ہر شخص جانتا ہے کہ کیا داؤ پر لگا ہے، اور یہ بھی جانتا ہے کہ ناکامی کے نتائج کیا ہیں۔ وہ بجا طور پر فارم کے قوانین کوان پر’موت کی سزا‘ کے طور پر دیکھتے ہیں، وہ اس عذاب کو روکنے اور اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کی بہتری کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایک بے ساختہ توانائی نے اب تک اس تحریک کو آگے بڑھایا ہے، تاہم آنے والے دن اس تحریک کی طاقت اور اس میں شامل یونینز کی جانچ کریں گے۔ مودی سرکار پہلے ہی بڑے پیمانے پر جبر کے اوزار تیار کررہی ہے، کوئی بھی عام شخص اسے مکمل طور پر دیکھ سکتا ہے کہ جب پولیس بہانوں سے سڑکیں کھودتی ہے، پائیک لگاتی ہے، اور کبھی چھوٹی بڑی رکاوٹیں کھڑی کرنے کے ساتھ اسٹیل کی سلاخیں لے کر آتی ہے، تاکہ کسانوں کو دبا سکے۔
ریاست پہلے ہی اُن کا پانی بند کرچکی ہے، انٹرنیٹ بند کردیا ہے اور کسانوں کے حق میں بولنے والے کارکنوں کو جیل میں ڈال دیا ہے۔ طلباء کارکنوں میں سے ایک’نودیپ کور‘، جو کسانوں کی حمایت میں نکلی تھیں، اب بھی جیل میں زیرحراست ہے۔ جہاں انھیں جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کشمیر میں دیکھے جانے والے جابرانہ اقدامات، اب دہلی اور اس کے نواحی علاقوں میں انٹرنیٹ بند ہونے سے لے کر پولیس کی رکاوٹوں تک اور انسداد فسادات واٹر توپوں کو پوری دنیا میں دیکھا جارہا ہے۔
حکومت کے تمام اقدامات کسانوں کو روکنے میں ناکام رہے ہیں، اس کے برعکس، کسانوں نے مزدوروں، نوجوانوں اور طلباء سے ملک بھر میں زیادہ تر ہمدردی حاصل کی ہے۔ دہلی میں لوگ کسانوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں، پورے ہندوستان میں ٹرک ڈرائیور کسانوں کی حمایت میں نکل آئے تھے، اور ان کی حمایت میں سپلائی چین بند کرنے کی دھمکی بھی دی۔ عام ہڑتال کے دوران ہر ٹریڈ یونین نے کسانوں کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ جو کچھ ہم سامنے پردے پر دیکھ رہے ہیں، اس کے مقابلے میں، مودی حکومت اور اس کی ڈھٹائی سے بھرپور سرمایہ دارانہ حامیوں کی پالیسیوں کے خلاف لڑنے کے لئے،اس سے کہیں زیادہ بڑے، وسیع اور طبقاتی بنیاد پر اتحاد کی تحریکیں موجود ہیں۔ مرکزی دھارے میں شامل بکاؤمیڈیا یاکنگنا رناوت جیسی معروف ومشہور شخصیات کے ذریعہ پروپیگنڈا کرنے سے ریاست کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ نہ ہی کسانوں کے حملے کو ’خالیستانیوں‘کے طور پر دکھانے کا کوئی نتیجہ نکلا۔ کسان مظاہرین کی مضبوط اور واضع دکھائی دینے والی سکھ جماعت نے یونین کے جھنڈوں کے علاوہ اپنے سکھ مقدس پرچم بھی لہرئے، لال پرچم میں بھی،کیا ایک یہی پرچم بلند کیا گیا تھا؟
ہندوستان کے نیوز میڈیا کے صرف بے وقوف جاہل پروپیگنڈا کرنے والے ہی اسے کسی طرح کی خالصتانی کوشش قرار دے سکتے ہیں۔اس تحریک کی طاقت نے حکومت کو خوف و ہراس میں ڈال رکھا ہے۔ ان کا پروپیگنڈا ناکام ہورہا ہے، ان کے جابرانہ اقدامات بھی ناکام ہورہے ہیں، اور نہ ہی کسان اپنے بنیادی مطالبے، فارم کے قوانین کے خاتمے کے لئے جھُک رہے ہیں۔ حکومت اس پر قائم رہنے پر اٹل ہے، تاہم انہوں نے جھکنا شروع کردیا ہے۔ سپریم کورٹ نے فارم لاز پر کارروائی روک دی ہے اور قوانین کا دوبارہ جائزہ لینے کے لئے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ حتی کہ حکومت نے 18 ماہ تک قوانین پر عمل درآمد کو روک دیا ہے۔ تاہم ریاست ایسی چالوں سے کسانوں کو بے وقوف بنانے میں ناکام رہی ہے، جو کسی دھوکہ دہی کے ہتھکنڈے کا نشانہ بننے کی بجائے قوانین کو مکمل طور پر منسوخ کرنے سے کم پر بات نہیں کرنا چاہتے اورجس سے حکومت کویہ مہلت نہیں مل سکے گی کہ وہ بعد کی تاریخ میں معمولی ترامیم کے ساتھ ان قوانین کو دوبارہ پیش کرے۔
آگے بڑھنے کا راستہ:
حکومت اور خاص طور پر مودی اس بات کو دہراتے رہتے ہیں کہ وہ ’مذاکرات کے لئے تیار‘ہیں، جبکہ اس کے ساتھ ہی وہ مظاہرین کے لئے خوراک اور پانی تک رسائی کو روکتے بھی ہیں، سڑکیں کھودتے ہیں اور ان کو روکنے کے لئے کئی طرح کی رکاوٹیں بھی کھڑی کرتے ہیں۔ اگر حکومت بات کرنا چاہتی ہے تو، وہ کسانوں کو روکنے اور ان پر حملہ کرنے کی کوشش نہیں کرے گی۔ اس منافقانہ رویے کوکسان،ملک اور دنیا کے باقی لوگ بھی دیکھ سکتے ہیں۔
حکومت اختیارات سے بھاگتی نظرآرہی ہے، اگر وہ لوگوں کے مطالبات پر عمل پیرا ہوتی ہے تو، وہ بڑے سرمایہ داروں کی حمایت سے محروم ہوجائے گی جن کے پیسوں نے بی جے پی اور مودی کو اقتدار دیا ہے۔ مودی عاجز نہیں ہوسکتے، چاہے وہ دکھاوا کرے۔ مودی کو ایک ’طاقتور‘قوم پرست رہنما کی شبیہہ پیش کرنا ہے تاکہ پارٹی کا کیڈر متحرک اور جنونی رہے۔ اگر وہ ناکام ہوتا ہے، اور اس کی حکومت ناکام ہوتی ہے تو، نظریہ کمزور ہوجاتا ہے اور پارٹی سیاسی طور پر گر جائے گی۔ ہندوتوا ہارے گا، بڑا سرمایہ اپنی ساکھ کھودے گا۔
لہذا یہ ضروری ہے کہ ہم انقلابی، ان کاشتکاروں کے لئے اپنی غیر مشروط مدد فراہم کریں، جو اب ہندوتوا کے رد عمل کے خلاف جنگ میں سب سے آگے ہیں۔ دہلی کی سرحدوں پر جمع ہونے والے مزدوروں اور کسانوں کو رد عمل کے سخت ہتھوڑے کے لئے تیار رہنا چاہئے اور اپنے نظم و ضبط کو برقرار رکھنا چاہئے۔ اسی دوران میں، انقلاب پسندوں کو بھی ہر طرح سے منظم ہونا چاہئے، تاکہ رجعت پسندوں کے حملوں کے خلاف تحریک کا دفاع کریں، اور ہم اس تحریک کو پوری طرح سے ایک ایسا بنیادی ایجنڈا دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو دیہی ہندوستان اور ہندوستان کے زرعی شعبے کو درپیش مسائل کی اصل حیثیت رکھتا ہے۔اس تحریک کے جیتنے کے لئے، سب سے اہم کام مزدوروں اور کسانوں کے مابین، یکجہتی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اس طرح کا اتحاد پہلے ہی سے تحریک میں موجود ہے، لیکن ہمیں اسے ایک واضح، مرئی سیاسی شکل اور ایک ایسا ایجنڈا دینا چاہئے جو دونوں شعبوں کو متحد کرسکے۔ دیہی پرولتاریہ شہر میں مزدوروں اور دیہی علاقوں کے کسانوں کے مابین ایک پل ہے، اور اسے گہری معاشرتی تبدیلی کے لئے اس تحریک میں سب سے آگے رہنا چاہئے۔
ہمارا ایجنڈا سب سے سادہ الفاظ میں، ہندوستان میں سوشلزم کا قیام ہے۔ جہاں سرمایہ داری غربت، بے زمین اور بدحالی لا رہی ہے وہاں سوشلزم زمین،قدرت پرعام عوام کا اختیار اور امید لاتا ہے۔
کسانوں کی تحریک کے حق میں سب باہر نکلو!
مودی سرکار مردہ باد!
امبانی ادانی مردہ باد!
فارم کے قوانین کو منسوخ کریں!
لیبر کوڈز کو ختم کرو!





