پچھلے ماہ،مارچ میں حکومت ایسے منصوبے کی منظوری دے چکی ہے جس کے تحت آئندہ دو سالوں میں کم از کم تین مراحل میں ملک بھر میں بجلی کے نرخوں میں فی یونٹ مجموعی طور پر 5.36 روپے (34 فیصد سے زیادہ) اضافہ ہوگا۔ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی نے ”سرکلر قرضوں کے موثر انتظام کو یقینی بنانے کے لئے پاور ڈویژن کے ذریعہ پیش کردہ سمری کی منظوری دی ہے”۔
جس کاخلاصہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اوسط یکساں نرخ آہستہ آہستہ 21.04 روپے فی یونٹ ہوجائے گا (ٹیکس، محصولات اور بل میں اضافے کو چھوڑ کر) جو کہ ابھی فی یونٹ 15.68 روپے ہے۔ اس سال جون میں ٹیرف ریبیسنگ میں 1.39 روپے فی یونٹ اضافہ کیا جائے گا تاکہ موجودہ سرکلر قرضوں کے بہاؤ کو رواں سال کے اندر اندر 13 ارب روپے کم کیا جاسکے، اس کے بعد اگلے مالی سال میں 126 ارب روپے اور اس کے بعد 136 بلین روپے کے مجموعی اثرات مرتب ہوں گے جو کہ کل ملا کردو سال میں 276 ارب روپے بنیں گے۔
اس کے بعد جولائی 2021 میں ٹیرف میں نرخوں میں 2.21روپے فی یونٹ اضافے کا امکان ہوگا، جس میں اگلے سال 199 ارب روپے اور مالی سال 2023 میں 215 بلین روپے کے محصولات شامل ہوں گے۔ جولائی 2021 میں اس نئے معیار کی مجموعی بچت 414 بلین روپے ہو گی۔
اس کے علاوہ جولائی 2022 میں،حکومت اضافی 176 ارب ڈالر پیدا کرنے کے لئے ٹیرف ریبیسنگ کے ذریعہ1.76 روپے فی یونٹ کا اضافہ کرے گی۔ سی ڈی ایم پیCDMP، جو بین الاقوامی قرض دینے والے اداروں کی حیثیت بھی رکھتا ہے، وزارت توانائی اور بجلی کے ریگولیٹر نیپرا کو پابند کرتا ہے کہ اس سال جون، جولائی 2021 اور جولائی 2022 میں تین بار نرخوں میں اضافے کے بارے میں نوٹیفیکیشن جاری کرے۔
اس حقیقت کے پیشِ نظر پاور ڈویژن نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بجلی کے ریٹس اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ جہاں اب صارفین متبادل حل کی طرف راغب ہونا شروع کرچکے ہیں۔
دوسری طرف سوئی گیس اور بجلی کمپنیوں نے گھر یلو صارفین کے بلوں میں (Slabs)” سلیب”(متغیر چارجز) کے نام سے عوام پر مزید معاشی باجھ ڈالنے کیلئے کا ایک ایسا استحصالی طریقہ اپنایاہے کہ اس کی مثال شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں ملتی ہو۔ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری نے پہلے ہی عوام کی زندگی د و بھر کر رکھی ہے، دوسری طرف حکومتی ادارے ایسے طریقہ کار اپنا رہے ہیں کہ جس سے کسی طرح عوام کی جیب پر ڈاکا ڈالا جا سکے، وہ غریب اور بے بس عوام جو کہ پہلے ہی سے کورونا جیسی مہلک وباء کا سامنا کر رہے ہیں اور جس کی وجہ سے اُن پر کاروبار کم ہو جانے کی وجہ سے شدید مالی بوجھ ہے۔
سوئی، گیس اور بجلی کی کمپنیوں نے عوام کا معاشی استحصال کرنے کیلئے سلیب (Slabs)کے نام سے جو فارمولا متعارف کرایا ہے، اس کے تحت ایک سلیب سے دوسری سلیب میں جانے پر انھیں ہزارروپے اضافی ادا کرنے پڑتے ہیں۔ سوئی گیس بلوں کی سلیب کچھ اس طرح ہے۔
سلیب (1) 272 روپے،سلیب (2) 1257 روپے،سلیب (3)4570 روپے،سلیب (4)9125 روپے
سلیب (5) 18227 روپے،سلیب (6)18290روپے
پہلے سلیب ریٹ اور دوسرے میں فرق 1000روپے کا ہے۔دوسرے سے تیسرے میں 3300 روپے کا،تیسرے اور چوتھے کا فرق 9000 روپے کا ہے۔بھلا صرف ایک دن ریڈنگ لیٹ لینے سے بل 272 سے 1257 کیسے ہو سکتا ہے؟یہ سیدھا سیدھا عوام کو بے وقوف بنانے والا ایک ظالم اور دھوکا دہی پر مبنی طریقہ ہے۔
اسی طرح بجلی کمپنیوں کا طریقہ کار پر بھی نظر ڈالیں تو، 300 یونٹ کا بل 3300 بمعہ ٹیکس اور 301 یونٹ کا 4400 بمعہ ٹیکس۔ اب بتائیں کہ ایک یونٹ زیادہ صرف کرنے سے 1100 روپے کا فرق کیوں اور کیسے؟
ایک نارمل تعلیم یافتہ شہری بھی آسانی سے اس طریقہ کار کو نہیں سمجھ سکتا توکم خواندہ لوگ اسے کیسے سمجھ سکیں گے؟ وہ صرف بل زیادہ آنے پر گھر والوں سے لڑتے ہیں یا کفایت شعاری کا طریقہ اپناتے ہیں،مگر کوئی بھی اپنا بجلی یا گیس کا بل پکڑ کو اس پر تحریر ٹیکنیکل اصطلاحات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔اس پر ستم ظریفی یہ کہ صارفین تک بل اکثرآخری تاریخ سے ایک دو دن پہلے ہی بھیجے جاتے ہیں، جن پر یہ درج ہوتا ہے کہ اگر بروقت ادائیگی نہ کی گئی تو سآپ کا کنیکشن کاٹ دیا جائے گا۔
ایک عام آدمی یا دیہاڑی دار جس کی ماہانہ آمدنی مشکل سے پندرہ یا بیس ہزار روپے ہوتی ہے، وہ اگر کسی بھی مالی مجبوری کی وجہ سے بروقت بل ادا نہ کر سکے تو اسے جرمانہ بھی دینا پڑتا ہے اور اگر مزید لیٹ ہو جائے تو سپلائی بھی کاٹ دی جاتی ہے۔پھر میڑکی بحالی پر اسے مزید جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے اور ساتھ کئی ہفتوں کا انتظار الگ برداشت کرنا ہوتا ہے۔
ان سارے استحصالی طریقوں سے نجات کا واحد راستہ اس موجودہ گلے سڑے نظام کے مفادات کا بھانڈا عام عوام کے سامنے لا کر پھوڑناہے،یہی ہماراوہ واحد فرض ہے جو ہر بے بس،کمزور اورمجبور فرد کی تکالیف کو کم کرنے کیلئے ہماری طرف سے پھنکا گیا وہ ایک پتھر ثابت ہو سکتا ہے جو موجودہ اور آنے والے نسلوں کیلئے ایک مضبوط سوشلسٹ نظام کی صورت ایک چٹان ثابت ہوگا۔





