ہم نے گزشتہ سال پوری دنیا میں وبائی مرض کے دوران محنت کشوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں اور معاشی حملوں کی بھرپور مذمت کی اور کر رہے ہیں۔ خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک میں محنت کشوں کی اکثریت کی موجود ہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں بچتی کہ پوری دنیا کے محنت کش سرمایہ داری کے ہاتھوں نسل کشی کا سامنا کر رہے ہیں!
تحریر: سارہ خالد
5اپریل 2021 کو، Our World In Data ڈیٹا پر موجود اعداد و شمار کے مطابق،اب تک دنیا کی 4.85فیصد آبادی کو ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ اس موجودہ ویکسی نیشن کی رفتار سے جنوری 2025تک 70فیصدآبادی بھی مستفید نہیں ہو پائے گی۔اگرچہ یہ اعدادوشمار حیران کن نظر آتے ہیں،مگر حقیقت اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔بہت سارے ممالک کے مابین ویکسی نیشن کی رفتار انتہائی غیر مساوی ہے کیونکہ WHOاعدادوشمار میں حقیقت کا ایک لازمی عنصرضرور چھپاتا ہے۔ مندرجہ ذیل جدول کچھ ممالک اور خطوں میں ویکسی نیشن کی رفتار کو ظاہر کرتاہے۔

بیشک ایک طرف کچھ ممالک اور ریاستوں، جیسے امریکہ اور مغربی یورپ میں، ویکسی نیشن کی شرح بڑھ رہی ہے، مگر دوسری طرف بیشتر ممالک میں اس وبائی مرض سے ہلاکتوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اب اس قاتلانہ ویکسی نیشن کی وجہ سے دنیا کی اکثریتی آبادی کی زندگیاں مٹھی بھر دواساز کمپنیوں کے رحم و کرم پر ہیں۔اسی طرح افریقہ کے گراف میں فلیٹ لائن وہاں کی ویکسی نیشن تک رسائی کے بدترین حالات کی نشاندہی کرتی ہے اور یقینا دوسرے براعظموں میں، کچھ ممالک جوویکسی نیشن لگانے کے سلسلے میں تھوڑا بہت آگے نظر آتے ہیں، انہوں نے بھی خطے کی اصل تصویر کو ظاہر کیے بغیر گراف پر لکیر کھینچی ہو گی۔
زیادہ تر ممالک میں، ظالم اور مفاد پرسٹ حکومتیں، فیکٹریوں اور خدماتِ عامہ کے شعبوں کو کھلا رکھنے کے علاوہ،اداروں میں سوشل ڈسٹنسنگ کوبھی یقینی نہیں بنارہیں۔ جس سے یقیناً انفیکشن کی شرح میں اضافہ ہورہاہے اور پھرورکرز کورونا ٹیسٹ پازیٹو آنے پر لمبی چھٹی پر بھیج دیئے جاتے ہیں جس سے اُن کی تنخواہوں میں کٹوتیوں کے حالات سازگار بنتے ہیں۔ورکرز بیچارے پہلے ٹیسٹ کے اخراجات برداشت کرتے ہیں پھربدقسمتی سے اگر ٹیسٹ میں مرض کی تشخیص ہو جائے تو ادارے کی جانب سے کوئی ریلیف ملنے کی بجائے اُلٹا اجرتوں میں کٹوتیاں ہوتی ہیں۔انتہائی منافقت کے ساتھ کچھ ممالک کی سرمایہ داری جو اب کورونا کی ویکسین کے بڑے کاروبار سے وابستہ ہے، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو ”بڑے پیمانے پر ویکسی نیشن” کا مطالبہ کرنے کے لئے استعمال کرتے نظر آرہی ہے۔وہ اپنے کاروبار کی بڑھوتری اور وباء کے دوران ورکرز کے استحصال کو جاری رکھنا اورمرض کے پھیلاؤ اور اموات میں اضافے پر صرف ”مگرمچھ کے آنسو” بہانے کی مشق کرتی نظر آتی ہے، لیکن انہوں نے ابھی تک ویکسین پیٹنٹ حقوق(مالکانہ اتھارٹی) کی معافی کیلئے کوئی اقدامات تجویز نہیں کئے۔
سامراجیت کا مقابلہ کرنے کیلئے ویکسین پیٹنٹ (مالکان اتھارٹی) کو توڑنا ضروری ہے
کورونا ویکسین اس صدی کا سب سے بڑا کاروبار بن چکی ہے۔پیٹنٹ ایک موجد کا حق ہے جو اُس کو اجازت دیتا ہے کہ وہ دوسروں کوویکسین بنانے یا فروخت کرنے کے حق سے سے خارج کردے جب تک کہ وہ متفقہ شرائط کے تحت دوسرے پروڈیوسروں سے ”پیٹنٹ فیس” وصول نہ کرے۔ اس وقت یہ پیٹنٹ حقوق(مالکانہ اتھارٹی) نجی ملکیت کا ایسا معیار ہے جو سرمایہ داری کے بڑے کاروبار میں تبدیل ہوچکا ہے۔
ویکسین کے مالکانہ حقوق توڑنے سے لیبارٹریوں کے ان تجارتی رازوں کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے جو اس وقت نئی ٹیکنالوجیز جیسے میسنجرRNA کے ذریعے پی فائزر / بائیو ٹیک اور موڈرنا جیسی نئی ویکسینز تیار کررہی ہیں۔اور اس بناء پر اسے ”امیروں کی ویکسین”بھی کہا جاسکتا ہے جس کی تیز ترین پیداوار عا لمی سرمایہ داری کے اہم مراکز امریکہ اور یورپ میں جا ری ہے۔
مالکانہ حقوق کے خاتمے سے مزید کئی موثر ویکسینوں کو آنے والی نسلوں کے استعمال کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔ورنہ مہنگے داموں ملنے والی ویکسین تک عام عوام کی رسائی نا ممکن ہے۔ وہ حکومتیں جو اس وقت قومی ویکسی نیشن کے منصوبوں پررقم خرچ کررہی ہیں وہ وہاں کے محنت کشوں کی محنت اور استحصال سے جلد ہی اس خرچ کی گئی رقم کو وصول کر لیں گی۔ویکسین پر مالکانہ حقوق کا مطلب بڑے منافع کی پیاس ہے جس سے سامراجی ممالک کی زیادہ تر عوام بھی انفیکشن سے محفوظ نہیں ہے۔ ریاستہائے متحدہ میں وبائی مرض کے اثرات کی تعداد اس کی واضح مثال ہے۔
برازیل، ارجنٹائن، جنوبی افریقہ اور انڈیا جیسے ممالک اتنی صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ اپنی آبادی کے لئے وافر ویکسین تیار کریں اور باقی ممالک تک بھی پہنچائیں۔مگرویکسین تیار کرنے والی نجی کمپنیوں کے شیئر ہولڈرز اربوں ڈالر وصول کررہے ہیں اور اس نازک صورتحال میں بھی صرف اپنے منافع کے بارے میں ہی سوچ رہے ہیں۔ چین کا سب سے امیر آدمی، 85 بلین امریکی ڈالر کا مالک، ژونگ شانشنZhong Shanshan ہے، جو بیجنگ وانٹائی بایولوجیکل فارمیسی انٹرپرائز کا سب سے بڑا شیئرہولڈرہے، جو ”نجی” ویکسین تیار کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مینوفیکچرنگ کمپنیوں کا منافع 2022 تک(موڈرنا) سے چار گنا اور (بایو ٹیک)سے دوگنا ہوسکتا ہے۔
اقوام متحدہ میں ”ہنگامی اور عارضی پیٹنٹ معاف کرنے” کے مطالبے پر بحث، جسے جنوبی افریقہ اور ہندوستان نے پیش کیا تھا اور اسے تقریبا 100 ممالک کی حمایت حاصل تھی، محض ایک عارضی ڈرامہ تھا۔جس میں سامراجی ممالک کے نمائندوں اور بہت ساری حکومتوں نے موجودہ نسل کشی کو برقرار رکھنے کو زیادہ ترجیح دی۔ا قوام متحدہ کا کردار ہمیشہ سے دنیا کے عوام کے مفادات کیلئے نہیں بلکہ سامراجی مفادات کے حامی کی حیثیت سے زیادہ اہم اور مضبوط رہاہے۔
اگر دوا ساز کارپوریشنز، آنے والے مہینوں میں اپنا پیٹنٹ حقوق معاف کربھی دیتی ہیں تو تب تک شاید بہت دیر ہو گئی ہو گی اور اس وبائی مرض میں ویکسین نہ ملنے کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہو گا۔ تب تک ان منافع خوروں کی تجوریاں بھی بھر چکی ہوں گی اور ان کے دماغ آنے والے وقت میں مزید کسی ایسے حربے کو کھوج رہے ہوں گے جس سے غریب ممالک کا استحصال کرتے ہوئے کس طرح اور سرمایہ بنایا جائے۔لہذا، یہ ان ممالک کی حکومتوں کی ذمہ داری ہے جو بڑے پیمانے پر ویکسین تیار کرسکتی ہیں، جیسے جنوبی افریقہ، ارجنٹائن، برازیل اور ہندوستان، کہ وہ یکطرفہ طور پر پیٹنٹ کے حقوق معاف کرتے ہوئے انہیں فوری طور پر تیار کرنا شروع کردیں، اور اگر وہ ایسانہیں کرتے تو تمام ورکرز،کسانوں اور عام عوام کی زندگیوں کی ضمانت کیلئے سبسڈی کے ساتھ سوشل آئسولیشن کی ضمانت دیں۔ پیٹنٹ حقوق کے خاتمے کا مطالبہ فوری طور پر عوام کو متحرک کرکے نافذ کرنا ہوگا۔یہ ایک ایسا مطالبہ ہے جس کو فوری طور پر اُن ممالک میں تمام محنت کشوں، اور عوامی تنظیموں کو اٹھانا چاہئے جہاں ویکسی نیشن کا عمل انتہائی سست ہے اور جہاں اب تک صرف خیراتی یا تحفے میں دی جانے والی خوراکیں ہی سلیکٹڈ افراد کو لگائی جا رہی ہیں۔یقیناً پاکستان بھی انہی ممالک کی فہرست میں شامل ہے!
محنت کشوں کی نسل کشی
بھوک، بے روزگاری اور کوویڈ کی وجہ سے اموات، زیادہ تر غریب ممالک کے سامراج کے ماتحت ہونے کے نتائج ہیں۔جو ممالک جتنا زیادہ سامراجی نمائندوں او ر انکی بنائی ہوئی ملٹی نیشلنلزکے تابع ہیں وہاں بھوک، افلاس،بیروزگاری اور مہنگائی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔اگر کوویڈ ویکسینز کے پیٹنٹ توڑے جاتے ہیں توبہت سے ممالک میں اموات کی بڑھتی ہوئی تعداد پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگر ویکسین کے فارمولوں کو آزادانہ طور پر استعمال کرنے کی اجازت مل جائے تو بہت سے غریب اور ترقی پذیر ممالک کوویڈ کی ویکسین بنانے میں خود کفیل ہو سکتے ہیں۔جس سے نہ صرف انسانوں کی قیمتی جانوں کے ضیاع کی شرع کم ہو سکتی ہے بلکہ کورونا جیسی خطرناک وباء پر مستقل قابو پاتے ہوئے ممالک کی معاشی حالت،خصوصاً محنت کشوں کے معاشی استحصال کو بھی روکا جا سکتا ہے۔لیکن انسانیت اور نفع کی ہوس کے درمیان کا تضاد، غریب اور مظلوم عوام کیلئے مصائب اور فاقہ کشی سے موت کو وبائی مرض کی نسبت اور زیادہ قریب کر دیتا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، 200 تجرباتی ویکسینز ابھی بھی تحقیقا تی مراحل میں ہیں، جن میں سے 60 سے زیادہ کلینیکل مرحلے میں ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے 31 فروری 2020 کوPfizer ویکسین اور 15 فروری کوAstraZeneca/Oxf آسٹر زینیکا کو گرین سگنل دیا تھا۔ اس کے بعد، چینی ویکسین CoronoVacکو اور روسی ویکسینSputnik کو منظوری ملی۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی (USA) کی تحقیق پر مبنی میڈیسنز سنز فرنٹیئرس (ایم ایس ایف) کا اندازہ ہے کہ 2022 تک آبادی کے صرف پانچویں حصے کو اس ویکسین تک رسائی حاصل ہوگی۔ ڈیوک یونیورسٹی گلوبل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ (USA) کی ایک رپورٹ جو جنوری کے وسط میں سامنے آئی،کے مطابق، بڑے سرمایہ دار ممالک نے، دنیا کی 16فیصدآبادی کی ویکسین کا 60 فیصدمحفوظ کرلیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ممالک نے اپنی آبادی کے لئے ضرورت سے کہیں زیادہ ویکسین محفوظ کر رکھی ہے۔ غیر سرکاری تنظیم ون کمپین کی ایک رپورٹ کے مطابق، ان کے پاس ایک ارب خوراکیں اپنی آبادی کی ضرورت سے زائد ہیں۔
جب کہ مٹھی بھر اجارہ دار دوا ساز کمپنیاں اپنے بے پناہ منافع کیلئے من پسند قیمتیں مختص کر رہی ہیں، ایسی قیمتوں پر جو زیادہ تر ممالک کے لئے ناقابل برداشت ہیں، وہ ویکسین کے پیٹنٹ حقوق سے فائدہ اٹھارہے ہیں، جبکہ لاکھوں افراد ویکسین وقت پر نہ ملنے کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں یا وباء کے خوف سے گھروں میں قید ہیں،اور جو ذاتی چھوٹے کاروبار سے منسلک ہیں انہیں لاک ڈاؤن کی سخت شرائط کا سامنا ہے ۔جبکہ ویکسین آ جانے کے بعد لاک ڈاؤن کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ مگر بدقسمتی سے وہ ممالک جو IMFکی سخت شرائط کے تابع ہیں وہ نہ تو ویکسین کو اپنے ملک کی آبادی کے تناسب سے خرید کر اپنی عوام تک پہنچا سکتے ہیں اور نہ تحفے میں یا فنڈ کی صورت ملنے والی نہایت کم خوراکوں کو ضرورت مندوں تک پہنچا نے کے قابل ہیں۔ جبکہ کورونا ویکسین کی انسانی تحفظ کی معیاد صرف چار ماہ ہے۔اور چار ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد دوبارہ سے خود کو محفوظ کرنے کیلئے ویکسین لگانی ہو گی۔اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان فارما کمپنیوں کو اس ایک مرض کی ویکسین کا پیٹنٹ محفوظ کرنے سے کتنا فائدہ ہو گا؟
ویکسینز بنانے والی کمپنیوں نے اپنی تحقیقوں میں لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا دعوی کیا ہے۔جس کے وجہ سے یہ ویکسین کو مہنگے اور منہ مانگے داموں پر بیچ رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ ریاستیں ہیں (جیسے امریکہ اور برطانیہ) جن میں موجود ہیڈ کواٹرز کو ویکسین کی ریسرچ اور تیاری کے لئے مجموعی طور پر 12 بلین امریکی ڈالر کی مالی اعانت فراہم کی گئی تھی۔ دوسرے لفظوں میں اگر ہم اس سے بھی زیادہ گہرائی سے دیکھیں تو، یہ وہ عوامی پیسہ تھاجس کا ایک خاص حصہ انہیں ممالک کے استحصال سے حاصل ہوا، جن کی اب ویکسین تک رسائی نہیں ہے۔مختصرا، یہ کہ اگرچہ تکنیکی اور پیداواری حالات موجود ہیں، اورتمام ممالک تک ویکسین کی رسائی بھی ممکن ہو سکتی ہے مگر سامراجیت لاکھوں لوگوں کی اموات کو روکنے میں کامیاب نہیں ہورہی جس سے بچا جاسکتا تھا۔
اسی کی ایک کڑی،چین اور روس اگرچہ خود کو غیر سرمایہ دارانہ ممالک کی فہرست میں گردانتے ہیں، مگر عالمی منڈی میں بھرپور مقابلے بازی کے ساتھ اپنی اپنی ویکسین اسٹاک فروخت کررہے ہیں۔اور اس کے لئے زیادہ سے زیادہ مارکیٹ میں اپنی اجارہ داری بڑھانے کیلئے کم قیمت پر اپنی پروڈکٹ آفر کررہے ہیں۔ چین بھی، خاص طور پر، اپنی پیداواری صلاحیت کو جسے ”ویکسین ڈپلومیسی” بھی کہا جا سکتا ہے، کے ذریعے اپنے سیاسی اور معاشی اثر و رسوخ کو بڑھانا یا برقرار رکھنا چاہتا ہے جو کورونا وباء کے آغاز سے کافی حد تک اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔
پاکستان کی صورتحال
پاکستان میں اپریل 7تک 800,000 خوراکیں کوویڈ ویکسین کی لگائی جا چکی ہیں۔ فرض کریں کہ اگر ہر فرد کو ویکسین کی2 خوراکوں کی ضرورت ہے، تو اب تک ملکی آبادی کا تقریبا ً0.2فیصد ہی ویکسین لگاسکے ہیں۔ اس رفتار کے حساب سے، آبادی کے مزید 10فیصد لوگوں کو خوراک لینے میں مزید 1,637 دن لگیں گے۔
ٰٖ 
اس رفتار کو دیکھتے ہوئے ملک میں ویکسین کی دستیابی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔وباء کو کنٹرول کرنے کیلئے اسکولوں،پارکوں اور چھوٹے کاروباری اداروں کو تو بند کیا جا سکتا ہے، لیکن کورونا پو قابو پانے کیلئے ویکسین منگوانے کا عمل ابھی تک التواء کا شکار ہے۔ اس حوالے سے حکومتی سطح پر بدترین غفلت کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ پچھلے چند دنوں میں کئی حکومتی وزرا، ترجمانوں کی تفصیلی گفتگو سننے کو ملی مگرکسی کے پاس معقول دلائل موجود نہیں کیونکہ حکومت نے ابھی تک ویکسین منگوانے کے لئے ذرا برابر بھی کوشش نہیں کی اور مظلوم نظروں سے عالمی اداروں کی طرف صرف خیرات میں ملنے والی ویکسین کا انتظارکرتی رہی ہے۔ جبکہ اگرحکومتی سطح پر ویکسین منگوائی جاتی تو سستی پڑنی تھی۔ کہا جارہا ہے کہ روسی ویکسین دس ڈالر یعنی پندرہ سو بتیس روپے کے لگ بھگ پڑتی۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر حکومت ایک یا دو کروڑ ویکسین منگواتی تو پندرہ یا بیس کروڑ ڈالر خرچ ہوتے۔ اورکورونا ویکسین کے نام پر پندرہ بیس کروڑ ڈالر نہایت آسانی سے عالمی اداروں سے قرضے کی مد میں مل بھی جانے تھے۔ حکومت اگر بروقت آرڈر دے کردو ڈھائی کروڑ روسی اور چینی ویکسین خرید لیتی تو آج کورونا کی شرح اتنی خوفناک نہ ہوتی اورنہ غریب کے روزگار کو پھر سے سمارٹ ڈاؤن کی آڑ میں تباہ کیا جاتا۔
اس پر ستم ظریفی یہ کہ فارما کمپنیوں کو حکومت کی طرف سے ویکسین امپورٹ کرنے کی اجازت دے کر مافیا کے لئے کرپشن کے نئے دروازے کھولے جا رہے ہیں۔ فواد چودھری نے گزشتہ دنوں ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ حکومت آبادی کے 98فیصد کو مفت ویکسین مہیا کرے گی جبکہ صرف 2فیصد کیلئے ہم نے ویکسین امپورٹ کرنے کی اجازت دی ہے۔اور امپورٹ ویکسین کی قیمت بھی اصل قیمت سے 160فیصد زیادہ مختص کی گئی ہے۔جس سے سیدھی سیدھی ریاست کی فارما کمپنیوں سے ملی بھگت ظاہر ہوتی ہے۔جبکہ عطیہ کے طور پر آنے والی ویکسین بھی حکومتی توقعات کے مطابق نہیں آ سکی۔
اس کے علاوہ ملکی سطح پر ایک بڑا چیلنج ویکسین لگانے کا بھی ہے۔ اس میں حکومتی کمزور حکمتِ عملی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ جو چند ایک سنٹرز بنائے گئے ہیں، وہاں ویکسین لگانے کی رفتار بھی انتہائی سست ہے۔ اصولی طور پر تو یہ ویکسین لگانے والے سنٹر اگر چوبیس گھنٹے نہیں چل سکتے تو کم از کم صبح چھ سات بجے سے رات بارہ بجے تک کام کریں۔ چھ گھنٹوں کی تین شفٹیں بنا لیں اور عملہ کی تعداد میں اسی تناسب سے اضافہ کیا جائے۔ ہزاروں لوگ روزانہ متاثر ہو رہے ہیں، اگلے چند ہفتوں تک مریضوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچنے کا خطرہ ہے۔ کروڑوں کو ویکسین لگنی ہے اور ابھی تک دس لاکھ کو بھی ویکسین نہیں لگ سکی۔
کورونا کی پہلی لہر کے دوران تو ہمارے پاس ایک ہی آپشن تھا کہ 20 سیکنڈ تک بار بار ہاتھ دھوئیں، ماسک پہنیں اور ہجوم والی جگہوں میں نہ جائیں۔ مگر آج کورونا کی تیسری خطرناک لہر کے دوران نارمل زندگی کی طرف واپسی کا سب سے پہلا آپشن یہ ہے کہ ہم اپنی آبادی کی بہت بڑی تعداد کو کورونا ویکسین فراہم کریں۔ جن ملکوں نے اپنے شہریوں کی ایک خاطرخواہ تعداد کو یہ ویکسین لگا دی ہے اور باقی آبادی کو تیزی سے حفاظتی ٹیکے لگائے جا رہے ہیں وہاں کورونا کی تباہ کاریوں میں بہت کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
دوسرے ممالک نے تو تقریباً آٹھ نو ماہ پہلے ہی اپنے بجٹ میں کمی بیشی کرکے اپنے شہریوں کی بہت بڑی تعداد کے لیے ویکسین کا انتظام کرلیا تھا۔ کورونا ویکسین تک عام عوام کی رسائی کا نہ ہونا دراصل حکومت کی ناقص گورننس ہے نہ کہ حکومتی خزانے کے خالی ہونے کا بہانا۔ اگر حکومت چاہتی تو طبی ماہرین، ہسپتالوں کے ڈائریکٹرز سے مشاورت کرتی اور یہ طے کرتی کہ کتنی کروڑ ویکسین کا بندوبست کرنا ہو گا، معقول طریقے سے اگر منصوبہ بندی کی جاتی تو اس وقت تک ایک چوتھائی آبادی کو ویکسین لگ چکی ہوتی۔ہماری حکومت نے شاید اب تک یہ آس لگا رکھی ہے کہ عالمی ادارے جن غریب ملکوں کو بڑی مقدار میں ویکسین فراہم کریں گے اُن میں پاکستان بھی شامل ہوگا۔

Our World In Data ڈیٹا پر موجود اعداد و شمار کے مطابق،وہ ممالک جن کی کل آبادی کے مطابق ویکسین کی خوراکیں عوام تک پہنچی ہیں،اس گراف میں پاکستان کی لکیر دیکھی جائے تو سب سے نیچے ہے۔
اب کوئی ان سے پوچھے کہ آپ آخر کس وقت کے انتظار میں ہیں کہ جب موجودہ کورونا سے ہونے والی اموات میں مزید اضافہ ہو گایا معاشی بدحالی کے نتیجے میں غریب کے گھر کا چولہا بالکل بند ہو جائے گا؟یا جب مفت ویکسین کے انتظار میں بند اسکولوں کے لاکھوں طلبہ کامستقبل تاریک ہو جائے گا؟یا جب نجی اسکولوں کے مالکان ایک بار پھر کورونا کی تیسری خطرناک لہر کی بھینٹ چڑھ جائیں گے؟ جبکہ اس بار قوم کے ہر فرد کا صرف ایک ہی نعرہ ہونا چاہیے کہ ”مفت ویکسین سب کیلئے“، لاک ڈاؤن حل نہیں بلکہ اولین ترجیع صرف ہر عام انسان تک ویکسین کی رسائی ہے۔کیونکہ پہلے سے پاکستان خطے میں ویکسین لگوانے والے کم ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔





