Home Pakistan 8مارچ: عورت پر جبر کا جواب صرف طبقاتی اتحاد

8مارچ: عورت پر جبر کا جواب صرف طبقاتی اتحاد

SHARE

تحریر: سارہ خالد

پاکستان نیم جاگیردارانہ قبائلی اور رجعتی سماج کا آئینہ دار ہے چونکہ ایسے سماج میں عورت پدرشاہی نظام کے مروجہ سانچے کے اندر ہی پرکھی جاتی ہے جہاں رسم و رواج روایات اور مذہب کے آمیزہ نے عورت کے لئے معاشرے میں رہنے کے معیارات بنائے ہوئے ہیں۔اور پھر ان معیارات کو عورت کے کردار کے ساتھ نتھی کر کے سماجی جبر اور خاندان کی غیرت کے نام سے منسلک کر دیا جاتا ہے۔

آج معاشی کردار کے حوالے سے،ہم اسے کھیتی باڑی، اینٹوں کے بھٹوں،فیکٹریوں، ملوں،سکولوں،ہسپتالوں اور تمام پیداواری اور خدماتی شعبوں میں کام کرتا دیکھ رہے ہیں۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ پاکستان کے سماج میں عورت کوہم گھر کے کام کاج، بچوں کی پرورش، صفائی ستھرائی، کپڑوں کی دھلائی اور دیگر امور خانہ داری میں مصروف عمل پاتے ہیں۔ ہمعورت کو طبقاتی حیثیت سے کاٹ کر الگ طبقہ نہیں سمجھتے، جاگیردار کی عورت جاگیردار، سرمایہ دار کی عورت سرمایہ دار،اور بیورو کریٹ کی عورت بیورو کریٹ ہے اور وہ محنت کشوں کے استحصال میں وہی کردار وہی نفسیات رکھتی ہے جو ایک سرمایہ دار رکھتا ہے۔بینظیر بھٹو،مریم اور حکمران طبقہ کی عورت اور محنت کش طبقہ کی عورت برابر استحصال کا شکار نہیں ہیں نا ہی برابر سماجی جبر کا شکار ہیں اس لیے ہم جب بھی عورت کو موضوع بناتے ہیں تومراد محنت کش طبقہ کی عورت کو لیتے ہیں۔ آج اس سرمایہ دارانہ دور میں عورت دہرے جبر کا شکار ہے، اس سے مراد ایک طرف توسرمایہ داری کا استحصالی جبر ہے جس میں گھر کا معاشی نظام،مہنگائی،بیروزگاری اور بہت زیادہ کام کی مصروفیت ہے اور دوسری طرف سماجی جبر ہے جس میں وہ کام کی جگہ پر جنسی ہراسانگی کا شکار ہے۔کم عمر کی شادی، بچوں کی زیادہ پیدائش اور پسند کے بغیر شادی جیسے جبر کے علاوہ گھریلو تشدد سر فہرست ہے۔ پاکستان میں خواتین کی عملی سیاست میں شمولیت نا ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ پدرشاہی روایات اور سماج کا جبر ہے جو اسے خود سے ووٹ دینے کا اختیار بھی نہیں دیتا۔یہاں تک کہ اسے نوکری کرنے اور معاشی خود مختاری اور خودکفالتی حاصل کرنے کے لیے مزاحمت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عائلی زندگی کی پیچیدگیاں، معاشی پریشانیوں،وراثت کے حقوق سے محرومی اور سماجی روایات میں پستی عورت آج بھی بے بسی کی تصویر ہے۔ ایسے معاشرے میں،ذاتی اور معاشی عدم تحفظ کا شکار عورت لازمی طور پر کسی کی مرہون منت زندگی گزارنے پر مجبور رہتی ہے اور یہی عدم تحفظ اس بربریت سے بھرے ظالم نظام میں اسے جسم فروشی تک مجبور کرتا ہے۔وہ بھیک مانگنے، خیرات اور زکو ۃ پر زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔اور بہت کم پیسوں کی خاطر کوٹھیوں پر میڈمز کے گندے برتن اور کپڑے دھونے پر مجبور ہوتی ہے۔ اسی طرح پرائیویٹ سیکٹر کے ہسپتالوں،شاپنگ مالز، فنانس کمپنیز،سکولوں میں لڑکیوں کو بہت محدود تنخواہ پر کام دیا جاتا ہے اور ان کا استحصال کیا جاتاہے۔

ُؑپوری دنیا کی صوتحال:

جنسی زیادتی کے واقعات،پوری دنیا،سمیت میں پاکستان،سال بہ سال بڑھتے جا رہے ہیں۔گزشتہ سال، بدقسمتی سے خواتین کے استحصال کے رجحان میں کافی حد تک اضافہ ہوا، کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام’کووڈ19‘ کی صورت میں نازل ہونے والی ناگہانی آفت کے بحران کا مقابلہ کرنے کے لئے نہایت کمزور ثابت ہوا۔ اور اس کی ناکامی نے دنیا بھر کے محنت کشوں (مرد و خواتین) کی تکالیف میں شدت سے اضافہ کیا۔آج پوری دنیا میں، خواتین پہلے سے کہیں زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ وبائی مرض COVID-19 کے درمیان، ناچاقی پر قتل، عصمت دری اور گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا۔ لاک ڈاؤن کے دوران، بہت ساری خواتین اپنے گھروں میں بد ترین بدسلوکی کا شکار ہوئیں،مزید یہ کہ، بیشتر ممالک میں قانونی اسقاط حمل کا فقدان ہونے کی وجہ سے صحت کا ایک بڑا بحران دیکھنے میں آیا خاص طور پر ان ممالک میں جہاں محنت کش خواتین حاملہ ورکرز کے لئے ریاستی پالیسیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ آج اقوام متحدہ خود،خواتین کے حقوق کی موجودہ صورتحال کی سنگینی کو تسلیم کرتی ہے۔ اپنی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، پوری دنیا میں خواتین پر تشدد ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔
کوویڈ۔19 لاک ڈاؤن کے دوران، بہت ساری خواتین اور لڑکیوں نے آئیسولیشن کے زمرے میں خود کو الگ تھلگ کردیا جہاں ان کے قریبی رشتہ داروں اور ساتھی کے ہاتھوں تشدد کا خطرہ مذیدبڑھا۔آج دنیا بھر کی ایک تہائی خواتین کو ذہنی،جسمانی اور جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ اورتقریباً18فیصد خواتین نے پچھلے 12 مہینوں میں اس قسم کے تشدد کا سامنا کیا۔یہ اعدادوشماراب انتہائی مہلک ثابت ہو رہے ہیں۔

عالمی سطح پر، ایک اندازے کے مطابق 137 خواتین روزانہ ان کے ساتھی/شوہر یا کنبہ کے ممبران کے ذریعہ ہلاک ہوجاتی ہیں۔دنیا کی نصف حصہ خواتین کو مانع حمل کے استعمال کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔موجودہ صورتحال کے آئینے میں، خواتین کے خلاف تشدد،سرمایہ دارانہ نظام کے زوال اور بربریت کا مظہر ہے اور مساوات، حقوق اور خواتین کے خلاف جبر و تشدد کے خاتمے کی ضمانت دینے میں ناکام رہا ہے۔اور اب اس وبائی بیماری نے پہلے ہی سے انتہائی مایوس کن صورتحال کو مذید بڑھا دیا ہے جہاں اب اس سے نکلنے کا اور کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا،سوائے اس نظام کے خلاف متحد ہو کر لڑنے کے۔سرمایہ داری اور اس کے ماتحت حکومتیں خواتین اور محنت کش طبقے پر ہونے والے تشدد میں ہمیشہ سے ہی اسکی ساتھی رہی ہیں۔کچھ حکومتوں نے وبائی مرض کرونا کے درمیان محنت کش خواتین(پیرا میڈیکل سٹاف،ٹیچرز،انڈسٹریل ورکرز)کے لئے جن پالیسیوں کو نافذ کیا وہ سراسر ناکافی رہیں، حتی کہ بہت سارے سپورٹ پروگرامز اور بنیادی خدمات صحت کے نظام کے با ضابطہ اعلانات کے بعد بھی مکمل سہولیات فراہم نہ کی گئیں۔ جس سے خواتین کے مسائل میں بہت خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔
اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ وبائی مرض کے دوران عالمی سطح پر ہونے والے تشدد سے نمٹنے کے لئے 45 ملین ڈالر کی ضرورت ہے، لیکن اس بجٹ میں سے 0.3 فیصد نے بھی اس مقصد کے لئے مالی معاونت فراہم نہیں کی۔خواتین چاہے گھریلو سطح پر ہوں یا ورکنگ وومن،دونوں صورتوں میں یہ سماج کا سب سے زیادہ پسماندہ سیکشن ہے۔ بورژوازی کے سامراجی کے بین الاقوامی ادارے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔نہ ہی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پالیسی ٹریکر میں،نہ عالمی بینک میں،اور نہ ہی بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے معاشرتی تحفظ اور لیبر رائٹس میں ان کے لئے کوئی واضع اور قابلِ عمل پالیسیاں نظر آتی ہیں۔اس وقت دنیا کی نصف سے زیادہ خواتین کی آبادی بے روزگار ہے، جنوبی ایشیاء، شمالی افریقہ اور مغربی ایشیاء میں ایک تہائی سے بھی کم خواتین کو ملازمت حاصل ہے۔وبائی مرض’کووڈ‘ اور گھریلو کاموں کے زیادہ بوجھ نے خواتین کو لیبر مارکیٹ سے نکال دیا ہے،اور اب انھیں زیادہ خطرناک حالات،جن میں اب پہلے سے بھی کم اجرت اور زیادہ مشقت والی ملازمتیں شامل ہیں، کرنے پر مجبور کردیا ہے، جس سے مرد اور خواتین کے درمیان اجرت کا فرق بھی مذیدبڑھ گیا ہے۔گھروں میں فاقے اور اشیائے خوردونوش نہ ہونے کی وجہ سے وہ کم تنخواہ پر بھی کام کرنے پر مجبور ہیں۔ہیلتھ سیکٹر میں موجودہ وبائی مرض کے خلاف جنگ میں بھی خواتین پہلی صف میں شامل رہیں،اور اب تک ہیں۔جن کی تعداد مرد ہیلتھ ورکرز کی نسبت تقریباً ستر فیصدسے بھی زیادہ ہے، اور وہاں بھی انھیں اپنے ساتھی مرد ورکرزکے مقابلے میں غیر مساوی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کوویڈ بحران نے ثابت کر دیاہے کہ اس سسٹم میں سب ایک جیسے نہیں ہیں۔طبقوں میں بٹا ہوا پورا سماج امیر اور غریب کو بڑے واضع فرق سے تقسیم کئے ہوئے ہے۔ اس وباء نے سرمایہ دارانہ عدم مساوات اور ظلم کو واضح طور پر بے نقاب کردیا ہے۔ مزدور، پسماندہ اور مظلوم آبادی کا بڑا حصہ،اس استحصالی نظام کی وجہ سے وقت سے پہلے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ جیسے جیسے بھوک، تشدد، مایوسی بڑھتی ہے۔سرمایہ داروں کے منافع کی شرع اتنی ہی اُونچی ہوتی ہے۔ ایسے میں خواتین اس استحصالی نظام کی بھینٹ زیادہ چڑھتی ہیں جن پر دہرے کام کی سخت شفٹیں بڑے پیمانے پر نافذ ہوتی ہیں۔
صحت، خوراک، تعلیم اور رہائش جیسی بنیادی انسانی ضروریات جیسے حساس نقطوں پر سرمایہ دار طبقے نے کئی دہائیوں سے سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ بلکہ یہ نقطے اُن کے لئے صرف سرمایہ کمانے والے ایسے سیکٹرز ہیں جن کو وہ ملکی معیشتوں پر معاشی بوجھ ظاہر کر کے بڑے پیمانے پر اُن کی نجکاری کررہے ہیں تاکہ وہ انسانوں کی ان بنیادی ضروریات پر لا متناہی شرح منافع حاصل کرتے رہیں۔جہاں نجکاری کے عمل سے محنت کش طبقہ بڑی تعداد میں متاثر ہوتا ہے وہاں اس سخت ناگوار عمل سے بھی،معاشرے کی پہلے سے ہی کمزور ترین پرت یعنی خواتین ہی سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں،اور ہو رہی ہیں۔پوری دنیا میں محنت کش خواتین جہاں، کم آمدن، مہنگائی بڑھنے اور وباء کے دوران گھر کے افراد کے زیادہ تر وقت گھر پر ہونے کی وجہ سے، گھریلو کام کاج میں اضافے کے سبب شدید دباؤ کا شکار ہوئیں وہاں بیروزگاری اور اجرتوں میں کٹوتیوں اور فیکٹریوں اور پرائیویٹ سیکڑرز میں،کرونا وباء کے دوران افرادی قوت گرائے جانے کے سبب،کم اجرت اور زیادہ کام لینے کی وجہ سے شدید متاثر ہوئیں۔ کیونکہ مہنگائی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے اب پہلے کی طرح گھر چلانا ممکن ہی نہیں رہا۔خواتین، جن کی اکثریت آج بھی مالی اور کئی طرح کے دوسرے مسائل کی وجہ سے معیاری تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں، وباء کے سبب آمدن میں واضح کمی ہونے کی وجہ سے اس بار کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے سے قاصر رہیں۔تعلیم کے سیکٹر میں، کروناوبا ء کے سبب محنت کش طبقے کی زندگی میں آنے والی منفی تبدیلیوں میں سے ایک بھیانک تبدیلی یہ بھی رہی،جس نے خواتین بڑے پیمانے پر متاثر کیا۔

صنفی تقسیم کا ڈرامہ

8 مارچ پر ہونے والے پروگرامز،پُرجوش تقاریر،عورت مارچ، یا اس طرح کے احتجاجوں سے یا ان میں کئے جانے والے مطالبات، موجودہ نظام کے ہوتے ہوئے عورت کے استحصال میں کسی طور بھی کمی نہیں لا سکتے۔ ان مظاہرین کی اکثریت،جو ان پروگرامز یا مارچز میں شامل ہوتے ہیں،خود بھی صنفی جبر سمیت عورت کے استحصال کی بنیادی وجوہات پر گہری نظریاتی سوچ نہیں رکھتے۔ایسی صورتحال میں،لبرل فیمنسٹ عورت کو صرف اور صرف پدر شاہی نظام کے خلاف اکساتے ہیں لیکن وہ سرمایہ داری کی حقیقت سے پردہ نہیں اُٹھاتے۔جبکہ اُلٹا سرمایہ داری سے استحصال زدہ اپنے شوہروں، بھائیوں اور والدسے ہی الجھنے اور بغاوت کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔جس کا مقصد پہلے ہی سے موجود جنسی تقسیم کومذید بڑھاوا دینا ہے، نہ کہ عورت کے استحصال کا خاتمہ کرنا۔ کیونکہ عورت کا استحصال دیگر معاشرتی مسائل کی طرح ہی ایک سماجی مسئلہ ہے اور سماج میں موجود تمام روایات اور رسومات مرد و زن دونوں مل کر بناتے ہیں اور اسی طرح دونوں کے مشترکہ اقدامات سے ہی معاشرے کو اور اُس کی فرسودہ سوچ یا نظام کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ محنت کش مرد اورعورت کی معاشی بدحالی،پریشانیوں اور جبر و استحصال کے خلاف جدوجہد،سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینک کر نئے اورخوشحال آزاد و خودمختار سماج کی بنیاد رکھی جانی چاہیے۔
لیکن اب ایسی تحریکوں کے توسط سے، عورت پر ہونے والے معاشرتی جبر کے خلاف ابھرنے والا غم و غصہ، مہنگائی، بے روزگاری، نجکاری، جبری برطرفیوں سمیت مختلف عوامی استحصالوں کی ہی ایک کڑی ہے جو کہ اب صبر کی تمام حدود کو پار کر چکا ہے۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں صنفی استحصال کے خلاف ہونے والے احتجاجوں، تحریکوں اور ہڑتالوں نے اس حقیقت کو واضع کردیا ہے کہ خواتین کے ساتھ روا رکھے گئے اس دوہرے سلوک سے آزادی محض احتجاج کرنے یا پدر شاہی نظام کے خلاف جانے سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے انقلابی بنیادوں پرپورے معاشرے کو تبدیل کرنا ہو گا۔ جسے محنت کش طبقے کے مرد و زن مل کر ہی اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرکے ممکن بنا سکتے ہیں۔لہذا اب ہمیں مل کر اپنی پوری طاقت سے،خواتین پر ہونے والے جنسی استحصال اور ظلم کو ختم کرنے کے لئے اس نظام کے خلاف لڑنا ہوگا،وہ نظام جو مزدورطبقے کا مشترکہ(مرد و زن)استحصال کرتا ہے۔ جبر کے خلاف جنگ میں، ہم مزدور مردوں کی حمایت چاہتے ہیں کیونکہ جو نظام عورتوں پر ظلم، تذلیل اور جبر کا ذمہ دارہے وہی محنت کش طبقے کو تقسیم اور کمزور کرنے اوراستحصال کو بڑھانے کے لئے بھی کام کرتا ہے۔وہی جنسی طور پر مرد اور عورت کو تقسیم کرتا ہے۔ اس لحاظ سے، مردوں کو خواتین کے ساتھ مل کر جنسی پسندانہ نظریات،جنسی تقسیم اور اس نظام کے پیدا کردہ معاشی بحران کے خلاف متحدہونا ہو گا۔ کیونکہ یہ ایک علیحدہ جدوجہد نہیں ہے بلکہ تمام محنت کشوں کی اس بے حس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مشترکہ جدوجہد ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کیے بغیر ظلم کے خاتمے کا کوئی راستہ نہیں۔

جبر و استحصال کا مقابلہ کرنے کے لئے طبقاتی اتحاد

عورت پر ہونے والے استحصال اور جبر کے خلاف جنگ میں، تمام محنت کش مرو و زن کو متحد ہونا ہو گا۔کیونکہ جو نظام عورتوں پر ظلم، جبر اور استحصال کرتا ہے وہی محنت کش طبقے کو تقسیم اور کمزور کرنے اور تمام کا استحصال کرنے میں اپنا مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے، ہمارے حقوق کے لئے جدوجہد پورے محنت کش طبقے کی ہونی چاہئے تاکہ تمام جنسی پسندانہ نظریات کے خاتمے کو ممکن بنایا جا سکے۔ اور ہماری تنظیمیں اس لعنت کا مقابلہ ہماری صفوں میں برابری کی بنیاد پرکریں تاکہ مشترکہ جدوجہد میں ہمارا مقصد آگے بڑھے۔پاکستان میں عورت کو فیصلہ سازی، سیاسی شراکت داری اور معاشی خود مختار ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اسے سکول، کالج، یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران خصوصی نفسیاتی اور ایموشنل سیشن کی تعلیم دی جائے۔ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے،جس سے وہ سیاسی تنظیموں، یونینز اور سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں آگے بڑھے۔اسے مرد ورکرز کے برابر کی تنخواہ اور دیگر ورکرز حقوق تک رسائی کے لیے آواز اٹھانے کے لیے ابھارا اور اکسایا جائے، تاکہ عورت یہ سمجھ سکے کہ سماج بدلے بغیر اور نظام بدلے بغیر وہ استحصال کا شکار رہے گی۔ اب عورت کو ایک آدھا انسان نہیں بلکہ پورا انسان ثابت ہونے کے لئے محنت کشوں کی تحریکوں اور سیاسی عمل میں کودنا ہو گا۔ لوکل باڈیز،مزدور یونینز،طلبہ یونینز میں اپنی نمائندگی اور حصہ داری لینی ہو گی۔
آئیے مل کر یہ عزم کریں کہ اس سال پیچھے ہٹنے کے بجائے، ہم اپنی پوری بڑھتی ہوئی طاقت کے ساتھ مذید آگے بڑھیں گے اور اس نظام کی پیدہ کردہ جنسی تقسیم کی شدیدمذمت کرتے ہوئے اپنے حقوق کے حصول کے لئے جاری جنگ کو آگے بڑھائیں گے اور تب تک جب تک اس فرسودہ نظام کو جڑوں سے نکال کر پھینک نہیں دیتے۔

بس اتنا ہی کافی نہیں ہے یہ بھی کہنا ہو گا کہ اب بہت ہو گیا اور نہیں!
ہماری زندگی بھی اہمیت رکھتی ہے!
خواتین پر ظلم اور استحصال بند کرو!
جنسی تشدد پسندی کے خلاف جنگ کے ہنگامی منصوبے کا آغاز!
ہم دنیا بھر کی خواتین کے لئے بہتر روزگار،مساوی تنخواہ اورآمدنی اور محفوظ کام کی
جگہ(work place) کا مطالبہ کرتے ہیں!
لیڈی ہیلتھ ورکرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کے لئے بہترین حفاظتی اقدامات اور سروس سٹکچر کے حصول کا مطالبہ کرتے ہیں! خواتین ورکرز کے لئے دورانِ زچگی چھ ماہ کی چھٹیوں اور فری میڈیکل کا مطالبہ کرتے ہیں!

SHARE