جموں کشمیر کی عوامی حقوق تحریک کی کامیابی کا دفاع کرو
پاکستان زیر انتظام جموں کشمیر عوامی حقوق تحریک کی جزوی کامیابی تاریخی سیاق و سباق کی ترجمانی کرتی ہے۔ جب بھی مقبول عوام منظم ہو کر سماجی تحریکوں کی شکل میں باہر آئے انھوں نے حکمرانوں کو جھکنے پر مجبور کیا۔ عوامی حقوق تحریک جس کا آغاز 10مئی کو ہوا تھا۔ عوام نے بھر پوری ہمت و جرات کے ساتھ قیادت کا ساتھ دیا۔ تحریک کے شروع سے لیکر حکمرانوں نے مختلف ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے ہوئے عوام کوتقسیم کرنے کی کوشش کی۔ تحریک ابھی پہلے مرحلہ میں ہی تھی کہ ریاست نے تاجروں کی قیادت کے درمیان تقسیم کو مزید ہوا دیکر پولرئزیشن کے عمل میں شدت لائی لیکن عام تاجر وں نے غلط کی غلط اور صحیح کی صحیح قد ر شناسی کرتے ہوئے ریاستی بیانیہ کی حامی قیادت سے کھل کر اختلاف کیا اور عوامی ایکشن کمیٹیوں کا حصہ رہے۔ اس عمل کے بعد پاکستان زیرانتظام جموں کشمیر کے گماشتہ حکمرانوں سے بار بار یہ پروپیگنڈا کروایا جاتا رہا کہ عوامی حقوق کی آڑ میں انڈیا اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یہاں کے حالات خراب کروانا چاہتا ہے چونکہ یہ حکمرانوں کا76 سالہ بیانہ تھا جیسے جلدی ہی مات ہوئی۔حکمرانوں کے اس موقف پر مقبول عوام یک زبان ہو کر کہتے رہے کہ تم ہمیں حقوق دے دو ہم تمہارے بقول کسی بھی انڈین ایجنٹ کے جلسے میں نہیں جائیں گے۔ اس کے بعد جوائنٹ عوام ایکشن کمیٹی کی قیادت مختلف اوقات میں حکومت کی طرف سے بلائے گئے مذاکرات میں بیٹھتی رہی، لیکن حکمرانوں کی طرف سے بنائیگئی کمیٹی کی یہ حالت تھی کہ کبھی ممبر ین کی مذاکرات سے غیر حاضری تو کبھی یہ کہا جاتا رہا کہ ہمارے پاس کوئی اختیارات نہیں کہ عوامی مانگوں کی منظوری دے سکیں۔ حکمرانوں کی ان حرکات اور فریب کو دیکھا کر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے نیچے والی ذیلی عوامی کمیٹیوں کی مشاوارت سے عام ہڑتال کیلئے ایک ایسے دن 5 فروری کا انتخاب کیا جس کو لیکر ہر سال پاکستانی ریاست سرکاری پیمانہ پرجموں کشمیر کے عوام کے ساتھ انڈیا کے خلاف یکجہتی کرتی آئی ہے۔ اس ہڑتال کی اہمیت نے جب مقبول عوام کے شعورمیں سرایت کی تو حکمرانوں کو پھر مذاکرات یاد آئے اورایک دفعہ پھر 4 فروری کو مطالبات کی منظور کیلئے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو مذاکرات کیلئے مدعو کیا اور کچھ مانگوں کو جزوی طور پر حل کرتے ہوئے نوٹیفیکیشن جاری کیا اور کچھ مطالبات کیلئے وقت مانگ لیا لیکن جب یہ نوٹیفیکیشن سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کے درمیان گردش کرنے لگا تو عوام کی اکثریت نے نہ صرف ان مطالبات کی جزوی منظوری پر تنقید کی بلکہ 5فروری کو بھر پور ہڑتال کی کال دی۔ عوام کے اس جذبے اور تنقید کو دیکھ کر قیادت نے تحریک کو مانگوں کے مکمل ہونے تک جاری رکھنے کا عہد کرتے ہوئے،11 مئی کو جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے سامنے پڑاؤ ڈالنے کا اعلان کیا، جسے پہلے تو ریاست بالکل سرکاری میڈیا کی خبروں کی طرح دیکھ رہی تھی لیکن جوں جوں وقت نزدیک آتا گیااور عوام کا مومینٹم بنتا گیا۔آخر کار 9 مئی کی رات کو ریاست کی طرف سے میر پور ڈویژن سے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اور ذیلی کمیٹیوں کے بہت سارے رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے مار ے اور گرفتاریاں عمل میں لائی جس کی پاداش میں 10مئی کو (JAAC) کی طرف سے عام ہڑتال کاا علان کرتے ہوئے احتجاجی ریلیوں کی کال دیگئی۔ پوری ریاست میں پولیس اور عوام کے درمیان کھینچا تانی ہوتی رہی۔ تصادم میں جہاں بہت سارے مظاہرین اور پولیس اہلکار زخمی ہوئے وہاں سب انسپکٹر عدنان قریشی سینے میں گولی لگنے سے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسلام گڑ قصبے میں چل بسا جہاں وہ دیگر پولیس اہلکاروں کے ساتھ کوٹلی کے راستے مظفر آباد جانے والی ریلی کو روکنے کیلئے تعینات تھا۔آگے چل کر جب سارے قافلے پونچھ ڈویژن میں داخل ہوئے تو راولاکوٹ کے مقام پر حکمرانوں نے ایک دفعہ پھر بھونڈے طریقے سے مذکرات کیلئے دعوت دیتے ہوئے آئیں بائیں شائیں میں عوام کو گھنٹوں انتظار کروایا وہ سمجھتے تھے کہ جس طرح وہ ماضی میں اپنے جلسے کامیاب کرانے کیلئے فری ٹرانسپورٹ،اچھے کھانوں اور سیر و تفریح کا جھانسہ دیکر عوام کا استعمال کرتے تھے اورعوام دوران جلسہ ہی ان کی نظریات سے آری تقریر وں سے اکتاہٹ کا شکار ہو کر واپس گھروں کوچلی جاتی تھی لیکن یہ کم بخت نہیں سمجھ سکے کہ جس عوام کو دہائیوں سے محرومیاں دی گئی ہوں وہ ہر بار سیرو تفر یح یا تماشہ کرنے باہر نہیں آتی بلکہ ریاست کی تاریخی چالاکیوں اور تجربات کی پختگی کے ساتھ ان کا شعور بھی ترقی کرتا ہے وہ بھی اپنے معروضی حالات سے سکھتے ہیں اور مسائل زدہ شعوری موضوع جب کل کا روپ دھرتا ہے تو اکثریت ہونے کے ناطے وہ اقلیت کے تمام انسان دشمن ہتھکنڈوں کا خاتمہ کرتے چلا جاتا ہے۔ دوران مارچ جہاں پر بھی حکمرانوں اور عوامی حقوق تحریک کی قیاد ت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا نیچے سے عوام کی ایک ہی مانگ تھی مذاکرات کیلئے منزل کا تعین پہلے سے ہو چکا ہے اور مانگوں کا نوٹیفیکیشن بھی آخری منزل پر ہی کیا جائے۔کارواں جوں جوں مظفرآباد کے نزدیک پہنچتا گیا حکمرانوں کے پاؤں تلے زمین گسیختگی گئی۔ جب لاکھوں لوگوں کا اجتماع، ڈھول کی تھاپ، نوجوان کے بھنگڑا(رقص) انقلابی گیت، نعرے اور ایک دوسرے کی مشروبات اور کھانوں سے خاطر تواضع سوشل میڈیا کے ذریعے بڑے پیمانے پر پاکستان کے عوام کے اندرمقبولیت کا بحث بن رہی تھی۔ جو حکمرانوں کے لیے برداشت کرنا مشکل تھا اس فوری طور پر تمام انٹرنیٹ سروسز معطل کر دی گئی۔ 12مئی بروزپیر ٹیسٹ کے طور پر پاکستان سے بھیجے گئے نیم فوج دستوں نے عوام پر فائرنگ کھول دی جس کی وجہ سے3 نوجوانوں کو شہد کر دیا گیا اور متعدد زخمی ہوئے۔ عوام نے واپس جواب دی۔پہاڑوں، بلڈنگوں، چوکوں اور چوراہوں سے عوام فائرنگ کی جگہ پر ایسے پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہر ایک کو شہادت دینے کی جلدی ہو۔ اس سارے منظر نامے کو جہاں بلواسطہ طور پر بکاؤ میڈیا کے ذریعے حکمران طبقہ دیکھ رہا تھا وہا ں بلاواسطہ نیم فوجی دستے بھی اس منظر کشی کا مزاج سمجھ چکے تھے اس لیے وہ وہاں بھاگ نکلے اور فوری طور پر حکمرانوں کو عوامی مانگیں منظور کرنا پڑی۔
تحریک کی حاصلات کو کیسے برقرار رکھا جائے؟
عوامی حقوق تحریک کی جرات نے نہ صرف جموں کشمیر کے عوام کو مزید ہمت دی بلکہ پاکستان کے عوام کے اندر ایک اجتماعیت کا جذبہ پیدا کیا کہ اگر مقبول عوام مل کر اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کریں تو حکمرانوں کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ عوامی حقوق غصب کر سکیں۔ ہمارے سوشل میڈیا فرینڈز اور جاننے والے باربار فتح کی کامیابی پر مبارک باد کے ساتھ عہد کر رہے ہیں کہ جلد وہ پاکستان کے اندر اپنے حقوق کو لیکر تحریک کا آغاز کریں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تحریک کی حاصلات کو برقرار رکھنے کیلئے حکمرانوں پر دیہاتوں اور قصبوں کی سطح سے مسلسل مسلسل دباؤ برقرار رکھ جائے۔ تحریک کے دوران جو تحربات ملے ہیں ان کو نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ شئیرکیا جا ئے بلکہ خواتین و حضرات کوبرابر نمائندگی میں، دیہاتوں اور قصبوں کے مسائل کے ساتھ اضلاح کی سطح پرمکمل منڈیوں اور مکمل جنرل ہسپتالوں کی مانگ کی جائے۔یہ عمل تب ممکن ہے جب عوامی کمیٹیوں کو شعوری طور پر سارے عمل کا حصہ بنایا جائے۔جمہوری مرکزیت کے تحت ہر کمپیئن پر ووٹنگ کی جائے۔ عوام کی۔ہر ممکن کوشش کی جائے کہ فیصلے اتفاق ِ رائے سے کئے جائیں ورنہ اکثریت کے فیصلے کو اقلیت پراہمیت دی جائے اس عمل میں بے شک آرگنازئرز اقلیت کا حصہ ہی کیوں نہ رہے، یہی بہترین عمل ہے عوام کے درمیان برابری، عاجزی اور اجتماعیت لانے کا۔ اس سارے عمل کو پیپلز اسمبلیوں کے ذریعے کروایا جائے جس کا آغاز دیہات اور قبصے سے کیا جائے اور ہر جگہ یہ کوشش کی جائے کہ ان عوامی کمیٹیوں میں موجود ورکرز سے ان کے اداروں کے اندر بھی ورکرز کمیٹیوں کی کمپیئن کروائی جائے۔ ہر پیپلز اسمبلی کے اندر مروجہ پاکستان زیر انتظام جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی جس کے جزوی آئین میں حق خودارادیت کے ساتھ الیکشن میں جانے پر پابندی ہے،کے خلاف بھر پور کمپیئن کرتے ہوئے متبادل آئین ساز اسمبلی کی اہمیت پر پروپیگیشن کی جائے۔ یہی طریقہ ہے جس سے تحریک کی کامیابی کو برقرار رکھتے ہوئے حکمرانوں کی عوام کو کنفیوز کرنے کی چالوں کا جواب دی جا سکتا ہے!۔
عاجزی ہمارا شعوری ہتھیار ہے
پاکستان زیر انتظام جموں کشمیر پاکستان کی نوآبادیات ہے اس لیے ضروری ہے کہ اصلاحات،آزادی اور خود مختاری کیلئے موجود تحریک میں عاجزی و انکساری کے عنصر کو شامل کیا جائے۔ موجودہ عوامی حقوق تحریک کی کامیابی کو لیکر بہت سارے درمیانی طبقے کے دانشوار اورشاویسٹ قوم پرست جموں تحریک کی جزوی کامیابی کو لیکر پاکستان کے محنت کشوں کو برہ راست یا سوشل میڈیا کے ذریعے طنز کرتے نظر آ رہے ہیں کہ کشمیریوں کی طرح لڑو وغیرہ۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں حالات قطعی طور پر رجعتی دور میں نہیں بلکہ شعوری طور پر انقلاب سے پہلے کی صورتحال شروع ہو چکی ہے۔ عوام یہ سمجھ چکے ہیں کہ پاکستانی حکمران پوری طرح سے کسی بھی قسم کی عوامی ریلیف دینے میں نا کام ہیں۔ عالمی منڈی میں پاکستان کا اثرورسوخ صفر ہے۔بے روزگاری مستقل مسئلہ بن چکی ہے۔ نیچے والے یعنی عوام تیاری کر رہے ہیں کہ مروجہ حکمران ریاست کا خاتمہ ضروری ہے جس کا پہلا آغاز اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عام الیکشن میں نظر آیا لیکن یہ آنے والے وقتوں میں چوکوں اور چوراہوں میں میں نظر آ سکتاہے جس کے نعرے ا سٹیبلشمنٹ کے اقتدار،مظلوم قومیتوں پرجبر، مہنگائی اورنجکاری کے خاتمے سے ہو سکتے ہیں۔اگر عوامی مزاحمت بڑے پیمانے پر شروع ہوئی تو یہ اتنی جلدی رکے گی نہیں۔ جس کا آغاز پہلے بلوچستان، پھر گلگت بلتستان اور اب کشمیر سے ہو چکا ہے۔ اس وقت ضروری ہے کہ جموں کشمیر عوامی حقوق تحریک کی قیادت اپنی حاصلات کے دفاع میں پاکستان کے عوام سے اپیل کرے کہ وہ پاکستان میں بنیادی حقوق اور جبر کے خلاف تحریک کا آغاز کریں۔