IWL-FI کی بنیاد جنوری 1982 میں رکھی گئی۔اپنے آغاز سے لیکر اس انٹرنیشنل کا بنیادی مواد و مقصد بنی نوع انسان کی فوری اور بنیادی ضرورت عالمی سوشلسٹ انقلاب کیلئے تحقیق و ترویج رہا۔ آج سرمایہ داری کے اندر بنیادی انسانی ضروریات جیسا کہ کام کاج، خوراک، رہائش اور باقی انسانی آزادیاں نا ممکن ہو چکی ہیں جو یہ ثابت کرتا ہیکہ ہماری پالیسی نہ ہی یوٹو پیا اور نہ ہی خالی خواہشات کا اظہار ہے بلکہ اس کی معروضی مادی حقیقت ہے کہ سرمایہ داری کی اذیت ہر روز عالمی سوشلسٹ انقلاب کی ضرورت کو تیر کر رہی ہے۔
تحریرعلیسیاساگرا
ترجمہ سارہ خالد
سوشلزم کے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم انقلابی ورکرز پر مشتمل پارٹیوں کی تعمیر کریں جو جمہوری مرکزیت پر مبنی بین الاقوامی کا حصہ ہوں کیونکہ اُن نام نہاد مرکزیت، وفاقیت پسند ی اور قومی ٹراٹسکائٹوں کے تمام تجربات تاریخ کے کوڑہ دانوں میں دفن ہو چکے ہیں، جو انقلاب کو محدور کرنے اور الجھانے کے در پے تھے۔ ہمارا یہ معمول اور اصول رہا ہے کہ ہم چیزوں کو اُن کے ناموں سے پکارتے ہیں اس لیے ہمارے نزدیک مرکزیت یا وفاقیت کا مترادف تحلیل ہے۔
اس سے مطابقت رکھتے ہوئے نئی قائم ہونے والی انٹرنیشنل نے اپنی حکمتِ عملی کے طور پر چوتھی انٹرنیشنل کی تعمیر نو کو لینن کی قیادت میں بننے والی تیسری انٹرنیشنل کے پروگرام اور طریقہ کار کے تسلسل کے طور پر دیکھا ہے۔ جس کا ہم 40 سالوں سے دفاع کر رہے ہیں۔بے شک ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہم بد قسمتی سے بائیں بازو کی دنیا میں اقلیت میں ہیں لیکن ہم ہی واحد بین الاقوامی تنظیم ہیں جو جمہوری مرکزیت کے اصولوں کے مطابق کام کر رہی ہے۔اگر آج ہم گہرائی سے باقی بائیں بازو کی تنظیموں کو دیکھیں تو کم و پیش بے شمار ایسی نظر آئیں گی جو سوشلزم کی حکمت ِ عملی کو ترک کر چکی ہیں۔ کچھ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں اور باقی اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ محنت کشوں کا انقلاب ضروری نہیں کیونکہ محنت کشوں کو اقتدار دیئے بغیربھی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ وہ مزدوروں کے اقتدار میں سوشلزم کی تعمیرکیلئے جدوجہد کو پارلیمانی جدوجہد سے بدلنے کی حکمت ِ عملی کے اسیر ہو چکے ہیں۔ یہ پارلیمنٹ میں نشستیں حاصل کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ حکومتوں کی وزارتی کابینہ کا حصہ بنتے ہیں جس کا خمیازہ محنت کش طبقہ آج تک بھگت رہا ہے۔ اس لیے ان تنظیموں کو کبھی بھی جمہوری مرکزیت کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ یہ تنظیمیں محنت کش طبقے کے اقتدار کی جدوجہد کے افق کو چھوڑ کر سرمایہ داری کے یاروں سے معاہدہ کر چکی ہیں۔
یہ کوئی نئی بات نہیں
کچھ ایسے لوگ ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ یہ پوزیشن پچھلی صدی میں 80 کی دہائی کے آخر اور 90 کی دہائی کی ابتد امیں مشرقی یورپ کے عمل کے بعد ابھری ہے جو کہ غلط ہے۔ اس عمل کو لیکر تاریخی کوششیں کی گئیں کہ سرمایہ داری سے اپنا حصہ لیکر آنے والی نسلوں کو الجھا کر رکھاجائے لیکن ہمیشہ ایسا عمل کرنے والے بُری طرح ناکام رہے۔انھیں ہمیشہ کارل مارکس،انیگلز، لینن اور ٹراٹسکی کے نظریے اور طریقہ کار نے شکست دی۔
سوشلسٹ انقلاب کی حکمتِ عملی کو ترک کرنے کا عمل پہلی بار پرانی جرمن سوشل ڈیموکرٹیک پارٹی میں ہوا۔ پارٹی کے اند ر قیادت کا ایک ایسا حصہ سامنے آیا جس نے کہا کہ محنت کشوں کی زندگیوں کو بغیر سوشلسٹ انقلاب کے بتدریج بہتر کیا جا سکتا ہے اور اگر سوشلزم ضروری ہے تو پارلیمانی ذرائع سے حاصل کیا جائے۔یہ موقع پرستوں کا ٹولہ اُس وقت متاثرہوا جب یورپ کے محنت کشوں نے نوآبادیات سے سامراجی استحصال کے عوض چھینے گئے وسائل سے حاصلات حاصل کیں اور یہ سلسلہ ہر الیکشن میں بڑھتا گیا اور پارٹی کے ڈپٹیز میں اضافہ ہوتا رہا اس طرح سوشلزم کو ترک کرنے کی حکمتِ عملی اُن ممالک کے انقلابیوں میں بھی سرائیت کرتی گئی جہاں نہ ہی محنت کشوں نے کوئی حاصلات حاصل کی تھیں اور نہ ہی انہیں انتخابی کامیابیاں ملی تھیں، جیساکہ اس عمل کا آغاز روس سے20 ویں صدی میں ہوا۔روس میں 1905 کے انقلاب کی شکست کے بعد بالشویکوں کے اندر سے بھی ایک اہم گروپ ابھر کر سامنے آیا جو انتہائی مایوسی کا شکار تھے جنہوں نے انقلاب پر یقین کرنا چھوڑ دیا تھا اور مذہبی ترکیب جیسی خیال پرستی پر مبنی دلیلوں کا سہارا لینا شروع کر دیا۔لینن نے ان خیال پرستوں کا جواب دینے کیلئے دو سال لگا کر1908 میں ایک کتابچہ رجعتی فلسفے پر تنقیدی نوٹ لکھا۔
شکستوں یا اہم دھچکوں کے بعد یہ عام بات ہے کہ قیادت کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں۔ ایسی تجاویز کیلئے جگہ بنتی ہے جو انقلابی حکمت ِ عملی کو ترک کرنے اور اصلاحی موقع پرستی کے فروغ کا باعث بنتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب دیر پا فتوعات کا کوئی امکان نہیں ہوتا تو اصلاح پسندوں کی پوزیشنیں کامیابیاں سمیٹنے لگتی ہیں یہ چھلانگ سوویت یونین میں 1990کی دہائی، مشرقی یورپ کی سابقہ بیوروکرٹیک ورکرز ریاستوں میں 1980 کی دہائی کے وسط میں شروع ہوئی اورچین میں اس کا آغاز1970 کی دہائی کے آخر میں ہوا۔سرمایہ داری کی بحالی اور سوشلزم کی موت کے واویلے کے ساتھ،بنیادی طور پر بیوروکریٹک موقع پرست قیادت نے سامراج کی جھوٹی مہم کے ساتھ ملکر محنت کشوں اور مقبول قیادت کی حوصلہ شکنی کو ہوا دی۔جسے ہم موقع پرست طغیانی کہتے ہیں۔سر تسلیم خم کرنے کا ایسا عمل جس کا ہم آج تک شکار ہیں۔ اس طغیانی نے ان تنظیموں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جو انقلابی ہونے کا دعویٰ کرتی تھیں جوآ ج آہستہ آہستہ اپنی سرگرمیاں انتخابات و پارلیمنٹریزم پر مرکوز کر تے ہوئے مختلف سازوں کے ساتھ اصلاح پسندی میں غرق ہو چکی ہیں۔
IWL کو بھی اس غیر معمولی حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ہم نے مزاحمت کی لیکن اس کی بڑی قیمت بھی ادا کی۔ ہم 40 سالوں میں اپنی 80 فیصد قیادت کھو چکے ہیں۔ لیکن آج بھی انسانیت کو بربریت سے بچانے کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب کے امکان کا دفاع کرتے ہیں۔
کیا سوشلزم ناکام ہو ا؟
مشرقی یورپ میں سرما یہ داری کی بحالی کے بعد کیڈرز کے درمیان بڑی بحث ہے۔ پہلی وجہ یہ کہ سرمایہ داری کی بحالی1989 کے بعد ہونے والی عظیم عوامی تحریکوں سے وابستہ تھی جب کہ حقیقت میں بحالی چار سال پہلے 1985 میں شروع ہوئی تھی۔اصل میں 1989 کے عوامی ابھار یا بغاوتیں سرمایہ دارانہ منصوبوں کو فروغ دینے کا ردعمل تھا۔ مشرق کے عوام یقینی طور پر انقلابی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے بیوروکریسی کی سرمایہ دارانہ بحالی کو پلٹانے میں ناکام رہے لیکن انھوں نے ایک عظیم فتح،سٹالننسٹ بیوروکریسی کی مطلق العنان حکومتوں کا خاتمہ کر کے حاصل کی۔سٹالننسٹ بیوروکریسی کو اُس بحالی کی قیمت ادا کرنا پڑی جو انہوں نے عائد کی تھی۔دوسری وجہ یہ تھی کہ بحالی عوامی تحریکیوں کی وجہ سے مسلط ہوئی کیونکہ عوام سامراجی مہم پر یقین رکھتے تھے کہ سوشلزم ناکام ہو چکا ہے۔اس پر ہمیں ارجنٹا ئن کے فلمساز ڈینیئل زیفرون کا جواب دلچسپ لگتا ہے جب اُن سے اس موضوع پر بات ہوئی کہ سوشلزم نا کام ہو گیا؟ اُن کا جواب۔۔۔ ” میں رومیو اینڈ جولیٹ کے بارے میں پُر جوش ہوں، اگر میں ڈرامہ دیکھنے جاتاہوں اور ڈائریکٹر بہت بُرا اور شو خراب ہے تو کیا مجھے کہنے کا حق ہے کہ شیکسپیئر ناکام ہو گیا؟”
یہ ایک بہت اچھا جواب ہے کیونکہ وہ سوشلزم نہیں تھا جو سابق سوویت یونین میں نا کام ہوا۔ محنت کش طبقے اور بالشویک پارٹی کی قیادت میں روسی انقلاب نے سوشلزم کا راستہ کھولا تھا۔ سرمایہ داری کا خاتمہ، منصوبہ بند معیشت اور محنت کشوں کی جمہوریت کے ساتھ روس ایک عظیم طاقت بن کر سامنے آیا۔محنت کشوں نے معاشی اور سیاسی فتوحات کے ساتھ اپنی زندگیوں کو خوب بدلا لیکن عالمی انقلاب کو شکست ہوئی اور سامراج قائم رہا۔جس کا سارا فائدہ سٹالن کی قیاد ت میں بیوروکریسی کے ایک حصے نے اٹھایا ۔مزدوروں سے اقتدار چھین کر سوشلزم کا راستہ روکنے کیلئے ایسی دہشت گرد حکومت قائم کی جس نے بڑی تعداد میں خون ریزی کرتے ہوئے انقلابیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا اور لینن کی پارٹی کو تباہ کر دیا۔1917کی حاصلات کو آہستہ آہستہ ختم کر کے یہاں تک کے 1980 کی دہائی میں سرمایہ داری کو بحال کیا۔اس لیے جو ناکام ہو ا وہ سوشلزم نہیں تھا بلکہ سٹالنسٹ بیوروکریسی تھی جس نے انقلاب کو ختم کر کے سوشلزم کے نام کو خاک میں ملا دیا۔
کیا سامراج کی تکنیکی اور عسکری طاقت انقلاب کی فتح میں رکاوٹ ہے؟
بہت سارے ایماندار ساتھی جو سرمایہ داری سے نفرت کرتے ہیں اُسے ختم کرنا چاہتے ہیں ایسا سوچتے ہیں کہ انقلاب کیلئے فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی میں مہارت بھی بہت اہم ہے کیونکہ سرمایہ داری خود کبھی بھی پُر امن طریقے سے اقتدار محنت کشوں کے ہاتھوں میں نہیں دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مزدوروں کیلئے اسلحہ سازی کا دفاع کرتے ہیں مثال کے طور پر ہم روسی حملے کے خلاف یوکرین کیلئے ہتھیاروں کا مطالبہ کرتے ہیں۔
لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ فوجی برتری فیصلہ کن عنصر نہیں ہے۔ جب 1918 میں روس کے اند ر خانہ جنگی شروع ہوئی۔برطانیہ، فرانس، امریکہ اور جاپان کی سرپرستی میں 14 ممالک کی فوجیں، ہتھیاروں، مشیروں اور روسی سرمایہ داروں (نام نہاد سفید فام روسیوں) کے ساتھ ملکر سوویت یونین پر حملہ آور ہوئیں۔یہ سب کچھ اُس مزدور ریاست کو شکست دینے کیلئے کیا گیا جس نے اپنی فوج تیار کرنی تھی۔
اتحادیوں کے پاس بڑی فوجی طاقت ہونے کے باوجود وہ انقلاب کو تباہ نہیں کر سکے جس کی بنیادی وجہ فوجی طاقت کے فرق کے باوجود حوصلوں میں بڑا فرق تھا۔ سامراجی فوجوں اور سفید فام روسیوں کے سپاہی اپنے مالکوں کے مفادات کیلئے لڑ رہے تھے۔ جبکہ سرخ فوج کے مزدوروں اور کسانوں نے انقلاب کے ساتھ جو کچھ حاصل کیا تھا اُس کا دفاع کر رہے تھے۔ بے روزگاری کا خاتمہ، مکان، زمین، علاج، تعلیم، مساوات اور اصل میں وہ اپنی عزت کا دفاع کر رہے تھے۔ اس لیے وہ الگ اخلاق کے ساتھ لڑے اور وہی غالب رہے۔
ایک اور عظیم مثال ویتنام کے لوگوں کی ہے جو یانکی(Yankee) فوج کی نسبت انتہائی کمزور اور غیر مسلح تھے لیکن 1975 میں ناقابل ِ شکست بن کر ابھرے اور دنیا کی طاقتور فوج کو شکست دی۔ بے شک اس میں امریکہ کے عوام کی یکجہتی شامل تھی جس نے اُس وقت ویتنامیوں کے حوصلے اور بہادری میں مزید اضافہ کیاجب امریکہ کے عوام نے یہ کہتے ہوئے بغاوت کی کہ ہم اپنے بیٹوں کو اُن مفادات کے دفاع کرتے ہوئے مرنے نہیں دیں گے جو مفادات کسی اور کے ہیں۔
ایسا ہی کچھ ہم یوکرین میں دیکھ رہے ہیں جہاں ہتھیاروں میں انتہائی کمزور ہونے کے باوجود یوکرین کے عوام قابض روسی فوج کے حوصلے پست کرنے کیلئے بہت سے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ فوجی برتری قطعی رکاوٹ نہیں۔
کیا یہ مسئلہ ہے کہ محنت کش طبقہ لڑنانہیں چاہتے؟
یہ اک دلیل ہے جو ہم نے کئی بار ورکرز اور اصلاح پسندوں سے سنی ہے۔جو ہمیں بتاتے ہیں کہ اب وقت 1917 کی طرح نہیں ہے جب روس میں انقلاب ہوا تھا یا 1959 نہیں جب کیوبا کا انقلاب ہواتھا۔ اب محنت کش طبقہ مختلف ہے۔ آج ہم اِن مایوس انقلابیوں سے گزارش کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں سرسری نظر ڈالیں کہ سماج کے اندر ایک ہل چل نظر آ رہی ہے۔ چلی کے بے روزگار نوجوان، محنت کش اور طلباء سڑکوں پر نکل کر یہ نعرے لگاتے ہیں مسئلہ 30 پیسوں کا نہیں مسئلہ 30 سالوں کا ہے۔ جن میں بہت سارے قید کئے گئے،مسخ کئے گئے، مارے گیے۔کیا وہ لڑنا نہیں چاہتے تھے؟
کیا سری لنکا میں کولمبیا، فلسطین،کیوبا، اور ایران میں بغاوت کرنے والے لڑنا نہیں چاہتے تھے؟
کیا ہندوستان، چلی، ارجنٹائن کی خواتین لڑنا نہیں چاہتی تھیں۔ کیا امریکہ کے اندر جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد سڑکوں پر نکلنے والے اور لڑنے والا کوئی نہیں تھا؟ کیا اب جن کا یقین انقلاب اور اپنے آپ سے اٹھ چکا ہے وہ یہ قبول کریں گے؟
حقیقت کچھ اور ہے مسئلہ محنت کش یا مقبول عوام کے لڑنے کے لیے تیار ہونے کا نہیں مسئلہ یہ ہے کہ ان کے رہنماانھیں کیا بتاتے ہیں، جو یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ سرمایہ داری کا خاتمہ ممکن نہیں ہمیں اس نظام کے اندر بہتری ممکنہ حد تک حاصل کرنی چاہیے۔ ہمیں اصلاح پسندوں کے ساتھ وسیع محاز بنانا چاہیے۔ یہاں تک کہ سرمایہ داری کے ساتھ بھی کیونکہ ہم بڑی اور زیادہ تعداد میں ہیں اور ہمیں اقلیت میں موجود سرمایہ داروں سے نہیں ڈرنا چاہیے۔
سوشلسٹ انقلاب کو ترک کرنے کا جواز پیش کرنے والے نظریات
اگرچہ بہت ساری مثالیں ہیں لیکن سابقہ یونیفائیڈ سیکریٹریٹ (US (جسے اب چوتھی انٹرنیشنل کا پولیٹیکل بیورو کہا جاتاہے۔ 2006 میں Danial Bensaid نے ایک مضمون لکھا جس میں اُس نے یوٹوپیائی مرحلے سے گزرتے ہوئے ممکنہ دنیا کی بات کی ہے۔ حکمت ِ عملی کے سوال کو لیکر بحث شروع کی ہے۔ جیسکہ برازیل میں پورتوالیگریPorto Alegre, Brazil) (کے میونسپل بجٹ 1996سے 2003 کے درمیان کی شراکت داری کو لیکر کہ مخالف طبقات کے اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے جس طرح ہم اس یوٹوپیائی دلیل سے پریشان ہیں ہمارے اساتذہ بھی تاریخی طور پر سوویت یونین کے وقتو ں میں سوویت یونین اور آئین ساز اسمبلی کے درمیان تعلقات کے جائزہ لینے کے بعد ارنسٹ مینڈل کے مخلوط جمہوریت کے خیال سے پریشان یا حیران بھی ہوئے ہوں گے۔ تاہم ان کے نزدیک آج بھی اقتدار کی قانونی منتقلی کے علاوہ کسی اور طریقے سے انقلابی عمل کا تصور کرنا ناممکن ہے۔ ان کے نزدیک سرمایہ دارانہ اسمبلیوں میں مربوط نمائندگی کی شکلیں ہی سوشلزم کی تعمیر کا اہم اور اولین ہتھیار ہیں۔ خاص طور پر ان ممالک کے اند ر جہاں پر طویل پارلیمانی روایات موجود ہیں اور جہاں اصول و ضوابط اب آفاقی حق رائے دہی کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہیں۔
بینسائیڈ(Bensaid)نے آج کے انقلاب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا کہ انقلاب کا حقیقی تصور دوہرا مطلب دیتا ہے۔ ایک وسیع مفہوم (جنگیں اور انقلابات) اور ایک فوری اور مشترکہ احساس جب تحریک دفاعی لمحے میں اپنے کو منواتی ہے۔یورپ میں بیس سال سے زائد عرصے کی پسپائی کی وجہ سے کوئی فوری طور پر انقلاب کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔دوسری طرف یہ تصور خطرناک یا کم اہمیت کا حامل ہے یا ہو گاکہ ہمارے عہد کے افق سے انقلاب کے تناطر کو ختم کیا جائے۔ بے شک زیادہ انقلاب پسندی کو برقرار رکھتے ہوئے فتح کے مقصد کو زندہ رکھا جائے لیکن یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ سوشلسٹ انقلاب کی منزل ہم سے بہت دور ہے۔
ہم سمجھ سکتے ہیں کہ بنیسائیڈ(Bensaid) صرف ایک دفاعی صورتحال کی بات کر رہا ہے جس میں انقلاب فوری طور پر کسی جگہ نظر نہیں آتا۔ اگر کسی جگہ یہ صورت ِحال موجود ہے یا ہو گی تو یہ غلط ہے۔۔ہم چوتھی انٹر نیشنل کے عبوری پروگرام 1938 کی بات کرتے ہیں یہ عبوری پروگرام اُس وقت لکھا گیا جب تاریخ کی سب سے زیادہ رد انقلابی صورت ِحال تھی۔ جرمنی میں ہٹلر، اٹلی میں مسولینی، سپین میں فرانکواور سوویت یونین میں سٹالن اپنی دہشت برقرار رکھے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود ٹراٹسکی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ انقلاب ہمارے افق پر موجود نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ کہا کہ ہمارا پروگرام تین الفاظ میں ترتیب دیا گیا ہے " پرولتاریہ کی آمریت” ۔
لیکن (Bensaid) اس صورتحال کو اتفاق قرار دیتے ہوئے واضح کہتا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ ایک عہد کی تبدیلی تھی جس دور کو لینن نے جنگوں اور انقلابات سے تعبیر کیا۔(Bensaid)کیلئے یہ صرف علامتی کردار ہے اور اس کی تصدیق اُس وقت ہوتی ہے جب فرانس کی LER نے اپنے پروگرام سے پرولتاریہ کی آمریت کوہٹایا،جب چوتھی انٹرنیشنل کے یونیفائیڈ سیکرٹریت نے اپنی15 ویں کانگریس کا اختتام ان قرارداروں سے کیا ۔چونکہ انقلاب کا تعلق اسی دورہے اس لیے بغیر کسی رکاوٹ کے انقلابیوں اور اصلاح پسندوں کو ملا کر وسیع جماعتیں اور وسیع انٹرؤنیشنل تعمیر کرنی چاہیے۔
Anti-capitalist Party (NPA) نے فرانس کے اندر، Bloco de Esquerda نے پرتگال، PSOL نے برازیل، نیشنل پارٹی اور عوامی ورکرز پارٹی وغیرہ بھی اس طرح کی سیاست کے راستے پر ہیں۔
ہم پہلے ہی سرمایہ دارانہ مخالف وسیع جماعتوں کی تعمیر کو لیکر اپنی 2003 کی عالمی کانگرنس کے موقع پر قرارداریں منظور کر چکے ہیں۔ چوتھی بین الاقوامی کو عمومی طور پر انقلاب پسندوں،سرمایہ داری مخالف انقلابی تنظیموں اور انقلابی سیاسی تشکیلات کی تعمیر کے سوال کو محنت کش طبقے کی ایک نئی آزاد سیاسی نمائندگی قائم کرنے کے تناطر میں رکھنا چاہیے۔
صرف انقلابی دھاروں کی تنظیم نو کے خوبصورت فارمولوں کی بحالی یا جڑت کا سوال نہیں بلکہ عزائم انقلابی قوتوں کے ساتھ ان قوتوں کو بھی اکٹھا کرنا ہے جو سرمایہ داری کے خلاف مزاحمت دے رہی ہیں۔ تاکہ چوتھی انٹرنیشنل کے پاس نئی تنظیموں کی نمائندگی کرنے کا کوئی جواز بنے۔ آنے والے برسوں میں نئی سرمایہ دارانہ مخالف پارٹیاں بن سکتی ہیں جو سرمایہ دارانہ محالف متبادل کی تلاش کیلئے سب سے پر عزم شعبوں کی لڑائی کے تجربے اورشعورکا اظہار کریں گی۔ یقینی طور پر ایک نئی انٹرنیشنل کا سوال موجود ہے۔ ہمیں چاہیے کہ جس طرح کام کررہے ہیں کرتے رہنا چاہیے تاکہ یہ سوال نظریاتی یا تاریخی فیصلوں کے حوالے سے پیدا نہ ہو۔ جو تفرقہ اور پھوٹ کا باعث بنے۔ یہ ایسا پلیٹ فارم ہو جو پروگرام کے گرد مختلف دھاروں کو ایک ساتھ لائے جن میں ٹراٹسکائٹ، آزادی پسند، انقلابی سنڈیکیٹس، انقلابی قوم پرست اور بائیں بازو کے اصلاح پسند،حالانکہ پہلی جنگ عظیم کے دوران 1916میں دوسری بین الاقوامی عظیم کی دھوکہ دہی کے بعد لینن پہلے ہی اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ اصلاح پسندوں کے ساتھ مشترکہ تنظیم نا ممکن ہے۔ یہ ایک بار پھر ثابت ہوا۔یونیفائیڈ سیکرٹریٹ (US) جس نے مینڈل کے زمانے سے مارکسزم پر نظرثانی کرنا شروع کر دی تھی۔ اب مکمل طور پر پروگرام ترک کر کے ایک اصلاح پسند تنظیم بن گئی ہے حالانکہ اس نے اپنے پرانے وقتوں کی سرخ گفتگو کے حصہ کو برقرار رکھا ہے۔ یہ حیرت کی بات نہیں اس کی سرگرمی کام کاج آج بھی پارلیمانی سیاست ہے بلکہ یہ بھی کہ وہ سرمایہ دارانہ حکومتوں میں شرکت کا دفاع اور اقوام متحدہ کی مداخلتوں کی حمایت کرتے ہیں۔
وبائی امراض، موسمیاتی بحران، جنگیں، تارکین وطن یا مہاجرین کے بحران کے اثرات کو دیکھ کر اس میں کوئی شک نہیں رہتا کہ سرمایہ داری انسانیت کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے بلکہ وسائل کی تباہی کا موجب بن رہی ہے۔ سوشلزم یا بربریت آج انسانی شعور کا اہم سوال ہے۔سرمایہ داری کا خاتمہ ہماری زندگی یا موت کا مسئلہ ہے اس لیے سوشلسٹ انقلاب روز بروز ضروری ہوتا جا ر ہے۔
جیسا کہ ٹراٹسکی کہتا ہے کہ انقلاب اُس وقت تک نا ممکن نظر آتا ہے جب تک یہ ناگزیر نہ ہو جائے جیسے تاریخ میں نظر آتا ہے۔ نہ ہی سامراج کی فوجی طاقت انقلاب کو روک سکتی ہے اور نہ ہی مسئلہ عوام کی جنگی صلاحیتوں کی کمی کا ہے۔ بڑا مسئلہ عبوری پروگرام کے مطابق بنیادی طور پر انقلابی قیادت کا بحران ہے۔
یہ بحران نہ صرف بڑے پیمانے پر انقلابی قیادت کی عدم موجودگی سے پیدا ہوا ہے بلکہ سابقہ US جیسی قیادتوں کی موجودگی اور بہت سی ایسی قیادتیں جن کے ہم نے حوالہ جات دئیے جو اپنے کیڈرز کو یہ باور کرواتے تھے کہ انقلاب نا ممکن ہے اس لیے بڑے بڑے سیاسی محازوں میں انہیں غرق کرتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ اصلاح پسندوں اور انقلابیوں کا اتحاد بنا کر اپنی طاقتوں میں اضافہ کرو۔
IWL.FI، ہم اس پر قائل ہیں اور ہم نے چالیس سال پہلے عالمی سوشلسٹ انقلاب کے ساتھ سامراج کو شکست دینے کیلئے ووٹ دیا تھا۔ اس لیے ملکی اور غیر ملکی سطح پر انقلابی پارٹیوں اور عالمی انٹرنیشنل کی ضرورت ہے۔ جس کا ماڈل لینن اور ٹراٹسکی کی تیسری اور چوتھی کی طرح ہو۔
روس، چین اور کیوبا کے عوام نے انقلابات کی فتوحات اور سرمایہ داری کو شکست دے کر بے روزگاری،بھوک و افلاس اور جسم فروشی کا خاتمہ کیا تھا۔ بے شک وہ انقلابات کھو چکے ہیں۔لیکن وہ دوبارہ ہو سکتے ہیں۔ انقلابات ایک مشکل کام ہیں لیکن یوٹوپیا ئی نہیں۔ یہ پہلے بھی ہو چکے ہیں، اس لیے دوبارہ کئے جا سکتے ہیں۔ اصلاح پسندوں کی سرمایہ داری کے ساتھ مصالحت رجعتی یوٹوپیا ہے اوریہ سوچنا کہ سرمایہ داری کو تباہ کئے بغیر محنت کش طبقہ اور انسانیت کے مسائل حل ہو سکتے ہیں بالکل غلط ہے۔
انقلاب کیلئے مخصوص وقت کا اعلان کرنا ناممکن ہے لیکن یہ لڑی جانے والی جنگ ہے اور نتیجہ بھی مرضی کا لیا جائے ایسا ممکن نہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ کوئی خدائی دعویٰ کرے کہ محنت کش طبقہ اپنا تاریخی مشن پورا نہیں کر سکتا اور نہ ہی باقی استحصال زدہ اور مظلوموں کی قیادت کر سکے گا۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ ایسا ضرورہو گاکہ محنت کش طبقہ سامراج کو شکست دے کر سوشلزم قائم کرے گاجس کی پیشنگوئی کارل مارکس سے لیکر باقی مارکسی اساتذہ نے بھی کی ہے!