غزہ جنگ بندی: ناقابل تصور نقصان کے بعد فلسطین کی جزوی فتح
غزہ جنگ بندی: ناقابل تصور نقصان کے بعد فلسطین کی جزوی فتح
20 جنوری 2025
فیبیوبوسکو
15 جنوری کو، قطری وزیر اعظم محمد الثانی نے اسرائیل اور حماس کی زیر قیادت فلسطینی مزاحمت کے درمیان ایک جامع جنگ بندی معاہدے کا اعلان کیا۔دنیا ابھی اس معاہدے کی ضرورت اور اہمیت پر بات کر رہی تھی کہ اسرائیل نے 19 جنوری کو غزہ پر دوبارہ بمباری کی۔
معاہدے میں جنگ بندی کے علاوہ قیدیوں کا تبادلہ، جن میں (عمر قید کی سزا پانے والے فلسطینی سیاسی قیدی بھی شامل ہیں)، 700 میٹر کی سرحدی پٹی کے علاوہ غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کا انخلا، انسانی امداد کی فراہمی، غزہ کے اندر فلسطینیوں کی آزادانہ نقل و حرکت، تعمیر نو کا منصوبہ، اور عرب ممالک کے فوجی دستوں کی نگرانی میں فلسطینی اتھارٹی کی حکومت کو غزہ تک توسیع دینے کا وعدہ۔ اس معاہدے پر تین مرحلوں میں عمل درآمد کیا جائے گا اور اس کی نگرانی امریکہ، مصر اور قطر کریں گے۔
شروع میں اسرائیلی حکومت کے پاس غزہ کیلئے مختلف منصوبے تھے: مثلاً مستقل فوجی قبضہ، شمالی غزہ سے فلسطینی آبادی کو بے دخل کرنا اور اس کی جگہ صہیونی کالونیاں بنانا۔ لیکن یہ مقاصد فلسطینیوں اور ان کے اتحادیوں کی بہادرانہ مزاحمت سے حاصل نہ ہو سکے۔
فلسطینی عوام 15 ماہ تک صیہونیوں کی جانب سے جارحانہ بمباری، گولیوں، بھوک، سرد موسم کی سختیوں، صحت کے شعبے کی تباہی اور نسل کشی کا سامنا کرتے رہے۔ غزہ میں کم از کم 65,000 فلسطینی مارے گئے، جن میں 70% خواتین اور بچے شامل تھے اور مغربی کنارے کی طرف 800 مزید فلسطینی مارے گئے، ہزاروں کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے علاوہ سکولوں اور ہسپتالوں سمیت تمام عمارتوں کو 70 فیصد تباہ کر دیا گیا۔ بہادر فلسطینی مزاحمت نے اسرائیلی فوج پر اتنے حملے کئے کہ نئے بھرتی ہونے والے فوجیوں کا مورال لڑائی کے دوران انتہائی پست رہا۔
اس جنگ کے دوران فلسطینی مزاحمت نے اسرائیل کے معاشی بحران کو مزید گہرا کیاجس کے نتیجے میں نہ صرف بڑے پیمانے پر سرمائے کو دوسرے ممالک کے اندر منتقل کیا گئے بلکہ لاکھوں آزاد خیال صیہونیوں کی بے دخلی دیکھی گئی۔ اس کے علاوہ، ریاستِ اسرائیل اور آرتھوڈوکس ہریدی آبادی کے درمیان تنازعہ موجود ہے جو فوجی بھرتی میں حصہ لینے سے انکار کرتے ہیں۔ آخر کار غزہ میں اسرائیلی قیدیوں کی ذلت آمیز صورتحال نے رشتہ داروں اور دوستوں کو متحرک کیا اور ان کی اکثریت جنگ کی مخالفت میں سامنے آتی رہی۔ بیرونی دنیا میں، بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی اور خاص طور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے عوام اور بلخصوص نوجوانوں کے درمیان امریکہ میں موجود یہودی برادری کے برتاؤ میں کمی، مجموعی طور پر صہیونی منصوبے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ جو کوئی بھی بینڈ کو ادائیگی کرتا ہے وہی موسیقی کا انتخاب کرتا ہے۔
اسرائیل، فلسطین جنگ کے دوران یقینی طور پر فلسطینیوں کی مزاحمت کے علاوہ کوئی دوسری چیز نیتن یاہو اور ان کی انتہائی دائیں بازو کی کابینہ کو پریشان نہیں کر رہی تھی۔ جب تک اُس کے اہم اور مرکزی اسپانسر امریکہ کے صدر ٹرمپ نے اپنے سفیر کے ذریعے 11جنوری کو فوری طور پر جنگ بندی کے موقف سے اگا کیا۔ غزہ اور جنوبی لبنان کی مزاحمت کے خلاف اسرائیل کے موثر قبضے میں ناکامی کے پیش نظر، اسرائیلی پریس نے رپورٹ کیا کہ یہ معلوم نہیں کہ اسرائیل پر یہ امریکی موقف مسلط کیا گیا یا پھر مغربی کنارے کے الحاق جیسے صہیونی مقصد کیلئے گرین لائٹ پر بات چیت کی گئی۔ غالباً، ٹرمپ اس جنگ بندی معاہدے پر اس لیے بھی عمل درآمد کروانا چاہتا ہے تاکہ وہ ”ابراہیم ایکارڈز” کو نافذ اورجاری رکھوا سکے، جو مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے تعلقات کو سعودی عرب سے شروع کرتے ہوئے معمول پر لانے کی کوشش کررہا ہے، جو اس کی پہلی انتظامیہ نے شروع کیا تھے لیکن غزہ جنگ کی وجہ سے غیر معینہ مدت کے لیے روک دیاگیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی ریاست اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے امریکی فنڈنگ، اسلحہ اور سفارتی حمایت پر انحصار کرتی اس لیے ٹرمپ کے ساتھ بحث کرنا دانشمندی نہیں سمجھتی۔
امریکی سامراج کے علاوہ اسرائیل کی حمایت کرنے والے دوسرے سامراجی ممالک بھی اس معاہدے سے مستفید ہوں گے، جیسکہ ہتھیار فراہم کرنے والے یورپی ممالک، تیل برآمد کرنے والا روس اور صیہونیوں کا اہم تجارتی ساتھی چین۔ یورپی سامراج کو توقع ہے کہ اسرائیلی نسل کشی کی حمایت کے خلاف عوامی تحریک کی لہر میں کمی آئے گی، اور چین بحیرہ احمر میں اپنے تجارتی راستوں کو دوبارہ قائم کر سکے گاجنہیں یمنی حوتیوں نے فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے بند کر دیئے تھے۔
مصر کو نہر سویز میں سمندری ٹریفک کو معمول پر لانے اور رفح کی سرحدی چوکی سے ہونے والی آمدنی سے دوبارہ فائدہ ہونا شروع ہو گا۔ ہوتیوں کے بعد قطر نے ایک دفعہ پھر فلسطینیوں میں سب سے زیادہ مقبول عرب حکومت کے طور پر تسلیم کروایا ہے۔ اور باقی عرب ممالک ایک دفعہ پھر عوامی غصے کا سامنا کیے بغیر اسرائیل کی خون خوار ریاست کے ساتھ شرمناک معمول کے معاہدوں کو دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ ایک نیا مشرقِ وسطی؟
صدر جو بائیڈن، جو غزہ، مغربی کنارے اور لبنان میں نسل کشی کے لیے ہتھیاروں کا مستقل بندوبست کرتا رہا، نے اعلان کیا کہ ان کی انتظامیہ جنگ بندی کی ذمہ دار ہے کیونکہ اس نے ایک نیا مشرق وسطیٰ تشکیل دیا ہے، حزب اللہ کمزوراور مسلسل زوال کا سامنا کر رہی ہے۔ بشار الاسد کو مجبور کیا کہ وہ عوامی مزاحمت کو تسلیم کرے وغیرہ۔
حماس نے جون 2024 میں جو بائیڈن کے اعلان کردہ جنگ بندی معاہدے کو پہلے ہی قبول کر لیا تھا، جو کہ موجودہ معاہدے سے تقریباً ملتی جلتی شرائط کے ساتھ تھا۔ دوسرے لفظوں میں، جنگ بندی کی راہ میں اصل رکاوٹ نیتن یاہو تھا، جو، جو بائیڈن کی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ مالیاتی، مسلح اور سفارتی تحفظ کے علاوہ باقی سامراجی ممالک کی حمایت کی بدولت غزہ میں نسل کشی جاری رکھنے میں کامیاب رہا۔
جہاں تک لبنان کا تعلق ہے، جنرل جوزف عون کا انتخاب اور نواف سلام کی بطور وزیر اعظم تقرری، جو امریکہ اور سعودی عرب دونوں کی حمایت سے حاصل ہوئی،یقینی طور پر امریکہ کیلئے ایک اہم پیش رفت تھی۔ لیکن یہ تبدیلی ابھی تک حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے اپنے اصل مقصد سے بہت دور ہے۔
شام میں، امریکہ اور اسرائیل دونوں نے برسوں تک جمود جیسی صورتحال پیدا کر کے بشارالاسد کی حکومت کو برقرار ررکھا۔ اسد خاندان نے 50 سال تک گولان پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کی حفاظت کی اور خود کو ایرانی حکومت سے دور کر تا رہا۔ اس کے علاوہ، اس نے فلسطینی مزاحمت کے کئی ارکان کو بدنام زمانہ سیڈنایا جیلوں اور ”فلسطینی ونگ” میں رکھا۔ صرف ترکی، قطر اور یوکرائنی خفیہ سروس کسی نہ کسی طریقے سے، فوجی اور مقبول حملوں میں باغیوں کومدد دیتے رہے، جو اسدحکومت کے خاتمے کا باعث بنی، ان ممالک نے فوجی مقاصد کے لیے باغیوں کو ڈرون ٹیکنالوجی فراہم کی۔ لیکن اسد کے خلاف فیصلہ کن عنصر شامی آبادی کی نفرت تھی، جس نے اسد کی سماجی بنیاد چھین لی۔ HTS کی قیادت میں ادلب کے مقام پر فوجی اور مشترکہ کارروائی ہوئی، جنوب اوردمشق میں عوامی بغاوت کی وجہ سے فتح حاصل ہوئی۔ شام کی نئی حکومت پڑوسی ممالک کے علاوہ تمام سامراجی ممالک، ترکی اور سعودی عرب جیسی علاقائی طاقتوں کے ساتھ مل کر ملک کی سرمایہ دارانہ تعمیر نو کی خواہاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گولان پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کے خلاف سفارتی احتجاج تک ہی محدود ہے۔ لیکن شامی آبادی میں فلسطینی کاز کے لیے ہمدردی ہمیشہ اکثریت میں رہی ہے اور رہے گی۔ یہ ممکن ہے کہ شام کی حکومت آنے والے عرصے میں اسرائیلی قبضے کے خلاف ہو جائے،کیونکہ یہ صیہونیوں کی حفاظت کرنے والی اسد کی خونخوار آمریت نہیں ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ حالیہ عرصے میں صہیونی ریاست نے شام پر تاریخ کی سب سے بڑی فضائی کاروائی کرتے ہوئے تقربیا 800 فوجی اور انٹیلی جنس اہداف پر بمباری کی، اسرائیلی ریاست شام کو تین ریاستوں میں تقسیم کرنے کیلئے ایک کانفرنس کو فروغ دنیا چاہتی ہے۔ جس کی تجویز، جنوب کی طرف ایک ڈروزریاست، شمال میں ایک کرد ریاست اور شامی عرب دمشق۔
۔ یقیناًاس منصوبے پر عمل درآمد کا انحصار امریکہ پر ہے۔
ایرانی سوال کو دیکھا جائے: تو ایرانی حکومت مغربی سامراج کے ساتھ ایک معاہدے کو ترجیح دے رہی ہے جس کی بنیاد پر بھاری اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کے بدلے جوہری معاہدہ کرنا شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، یہ روسی سامراج کے ساتھ ایک باہمی تعاون کے معاہدے پر دستخط کرتا چاہتی ہے تاکہ اسرائیل کی ممکنہ سامراجی فوجی جارحیت سے بچا جا سکے، جو ہر وقت جوہری، فوجی یا تیل کی تنصیبات پر حملہ کرنے کے لیے تیاربیٹھی رہتی ہے۔ ایک بار پھر، یہ حملے مکمل طور پر امریکی حمایت پر منحصر ہوں گے۔
جزوی فتح مگر جدوجہد جاری رکھنی چاہیے۔
اس علاقائی اور بین الاقوامی منظر نامے میں ہم اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ نسل کشی کا خاتمہ فلسطینیوں کی جزوی کامیابی ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ فلسطینیوں نے جنگ بندی کے اعلان کا خوشی کے ساتھ استقبال کیا۔ فلسطینی عوام ایک بار پھر اپنی بہادرانہ مزاحمت کے ذریعے اسرائیل کو اس کی زبردست فوجی برتری کے باوجود پسپا کر نا میں کامیاب رہے۔لیکن یہ حقیقی امن نہیں ہے۔ ہم ایک ناقابل بیان انسانی تباہی کے درمیان ایک انتہائی غیر مستحکم صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں، جہاں یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اسرائیل معاہدے کی شرائط پر عمل کرے گا۔ اس جنگ بندی کا مطلب نسل کش صہیونیت کے تشدد کا خاتمہ نہیں ہے۔ اسرائیل کے قبضے کے خاتمے اور دریائے اردن سے بحیرہ روم تک آزاد فلسطین کے قیام کے بغیر امن، ممکن نہیں ہو سکتا۔
ہم اس جنگ بندی کو اسرائیل اور سامراجی حکومتوں کے تعاون سے کی جانے والی نسل کشی کو فراموش نہیں کر سکتے۔ ہمیں یہ مطالبہ جاری رکھنا چاہیے کہ صہیونی مجرموں کو بین الاقوامی فوجداری عدالت کے حکم کے مطابق گرفتار کیا جائے اور جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا مقدمہ چلایا جائے۔
اس جزوی فتح کو فلسطینی مزاحمت کی مضبوطی کے ساتھ ہی برقرار رکھا جائے گا اور اس میں توسیع کی جانی چاہیے، عرب ممالک اور دنیا بھر کا محنت کش طبقہ، نوجوانوں کی بین الاقوامی یکجہتی کے ساتھ منظم ہو کر نہ صرف عوامی تحریک کے ذریعے اپنا دفاع کرے بلکہ آمرانہ عرب حکومتوں کا تختہ الٹایاجائے۔ جس طرح شام میں سامراجی فوجی مشین کو مفلوج کیا گیا۔