Home World پوٹن کے حملے کے خلاف یوکرین کی تین سالہ بہادرانہ مزاحمت

پوٹن کے حملے کے خلاف یوکرین کی تین سالہ بہادرانہ مزاحمت

SHARE

پوٹن کے حملے کے خلاف یوکرین کی تین سالہ بہادرانہ مزاحمت
26 فروری 2025
تحریر:تراس شیوچک
24 فروری کو یوکرین کی سرزمین پر حملے اور قبضے کو تین سال ہوچکے ہیں۔ تین سال کے دوران روسی سامراج کی طرف سے مسلسل بمباری، کئی شہروں کی تباہی؛ روسی فوجیوں کے ہاتھوں پکڑے گئے یوکرائنی جنگجوؤں پر تشدد اور قتل ِ وغارت گری کی، ہزاروں شہریوں کو ہلاک اور لاکھوں کو زخمی کیا گیا، ایک اندازے کے مطابق تقریباً 100,000 بچوں کو اغوا کرکے دوبارہ بنیادی ”تعلیم ” کیلئے روس لے جایا گیا۔ پوٹن کے جنگی جرائم 1941تا1944 کے درمیان ہٹلرکے بھیجے، نازی قابضین کی طرف سے کیے گئے جرائم کی ایک وسیع نقل ہے۔ غزہ میں صہیونی نسل کشی کا طریقہ بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔ دنیا بھر کے عوام کو چاہیے کہ انسانیت کے خلاف ان جرائم کو کبھی بھی فراموش نہ کریں اور پیوٹن اور نیتن یاہو جیسے جنگی مجرموں کی سزا کا مطالبہ رہتی دنیا تک رہنا چاہیے۔

جارحیت کا آغاز 2014 میں ہوا تھا۔

Masked men block the entrance to the trade union building in Simferopol, the administrative center of Crimea, holding a Russian flag during the invasion of the peninsula ordered by Putin in 2014.
Masked men block the entrance to the trade union building in Simferopol, the administrative center of Crimea, holding  Russian flag during the invasion of the peninsula ordered by Putin in 2014

2014 میں پوٹن کے حکم سے نقاب پوش افراد روسی پرچم تھامے، کریمیا کے جزیرے پر حملے کرتے ہوئے انتظامی مرکز سیمفروپول میں ٹریڈ یونین کی عمارت کے داخلی راستے کو اپنے کنٹرول میں لے لیتے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ سامراجی جارحیت فروری 2022 سے بہت پہلے شروع ہوچکی تھی۔ اس کا آغاز بے پناہ عوامی انقلابی بغاوت کی فتح کے جوابی ردعمل کے طور پر ہوا تھا۔ عوامی انقلابی بغاوت جس نے فروری 2014 میں صدر یانوکووچ کا تختہ الٹ دیا تھا۔اس کے جواب میں روسی سامراج نے مارچ 2014 میں بندوق کے زور پر FSB کے نیم فوجی دستوں کے زیر سایہ ریفرنڈم کرواکر کریمیا کا زبردستی الحاق کیا – جب روسی فوج کے زیر انتظام نیم فوجی دستوں نے چھاپے شروع کیے۔ اور اپریل 2014 میں ڈون باس پر حملے کا آغاز ہوا –
اور خودساختہ طریقے سے لوہانسک اور ڈونیٹسک کو زبردستی ملا کر ”عوامی جمہوریہ” کا اعلان کیا گیا۔
اُس وقت دیکھنے کی ضرورت ہیکہ نام نہاد ”مغربی جمہوری طاقتوں ” کا ردعمل کیا تھا؟
صرف منافقانہ ”گہرے خدشات” کا اظہار کرتے ہوئے 24 مارچ کو، الحاق کے بعد، جرمن چانسلر،مرکل نے G-7 اجلاس سے پہلے، ”کرائمیا کی حیثیت پر بات” کرنے کے لیے، پوٹن کے ساتھ فون پر بات چیت کی، جو تقربیاًاب تک جاری ہے۔ اورجرمنی نے روس سے سستی گیس اور تیل کی خریداری میں بھی اضافہ کیا، جوتاحال روز و شور سے جاری و ساری ہے !
2015 میں، مرکل اور میکرون نے ایک اورفریب ِ مذاکرات کا اہتمام کیا، جس میں ان دونوں کے علاوہ روس کے صدر پوٹن اور اس وقت کے یوکرینی صدر پوروشینکو نے بھی شرکت کی۔ پوروشینکو — کی مشہور اولیگار (بین الاقوامی کنفیکشنری) کمپنی، جو چاکلیٹ بناتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پوروشینکو کو چاکلیٹ کنگ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہ یوکرین کی خودمختاری کا ایک حقیقی غدار تھا، ایک غیر فعال قائد کے طور پر کام کرتا رہا،جس دوران پوٹن نے ”انسانی ہمدردی کے قافلے” کی آڑ میں یوکرائنی علاقوں کا استعمال کرتے ہوئے ڈون باس کو ہتھیاروں سے لدی ٹرینیں بھیجیں اور یوکرین کے خلاف جارحیت کے تمام سالوں میں روسی لپیٹسک میں اپنی فیکٹریاں چلاتا رہے۔
اس کے بعد سے، ہزاروں جنگجو ڈون باس میں یوکرین کی خودمختاری کا دفاع کرتے ہوئے ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم، پوروشینکو حکومت اور موجودہ حکومت کے پاس کبھی بھی ایسی پالیسی سامنے نہیں آئی جس کا مقصد قومی آزادی کو حقیقی معنوں میں تحفظ فراہم کرنااوربڑے پیمانے پر جارحیت اور لوٹ مار کا مقابلہ کرنا شامل ہو۔ اس کے برعکس یہ ہمیشہ روسی سامراج سمیت بین الاقوامی سامراج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی حامی بھرتے نظر آئے۔
فروری 2022 میں مکمل حملہ
”مغربی” سامراج کی بے عملی اور یوکرائنی حکمرانوں کی بزدلی سے حوصلہ پا کر، پوٹن نے 2022 میں فیصلہ کیا کہ اس کے پاس جو ”دنیا کی دوسری سب سے طاقتور فوج ہے صرف” ”تین دنوں میں کیف پر قبضہ” کر لے گی، حکومت کا تختہ الٹ کر اس کی جگہ اپنی کٹھ پتلی حکومت بیٹھا دے گی۔ جیسے سابق صدر وکٹر یانوکووچ کی حکومت، جو 2014 میں غیر مقبولیت کی وجہ سے معزول ہو گئی تھی۔
وائٹ ہاؤس نے پوٹن کے 2022 کے حملے کے دوران یوکرائنی صد ر کو صرف ایک ہی چیز کی پیشکش کی تھی کہ ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی وہ ایئر فورس کا طیارہ لیکر بیرون ملک فرار ہو جائے ۔تاہم، میدان کی انقلابی توانائی جو عوام کے اندر پوشیدہ تھی، فورا باہر آئی اور رجعتی انحرافات اور غلط انتخابی متبادلات کے باوجود کیف کے علاقے میں بیلاروسی سرحد سے شمال تک حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کے ساتھ حب الوطنی کے ایک نہ رکنے والے دھار کے طور پر اس وقت سے لیکر آج تک موجود ہے۔ ہر ایک ہتھیار کا تناسب دس رضاکاروں پر مشتمل تھا۔ ہر عمر کے مرد اور خواتین، یہاں تک کہ 18 سال سے کم عمر کے نوجوان، ہتھیار حاصل کرنے اور جنگ میں جانے کے لیے بیتاب تھے!
اگر کوئی یوکرائن کی جنگ کے بارے میں پوچھتا ہے تو ہم کہتے ہیں یہ تھی یوکرین کی بہادری، چند اور ابتدائی ہتھیاروں اور مواصلات (صرف سیل فون) کے ساتھ پوٹن کی فوج کو شمال کی طرف پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ جہاں سے روسی اسپیشل فورسز اور چھاتہ بردار فوجی ہارڈویئر کا ایک پگڈنڈی اپنے پیچھے چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ بے شک اس سے پہلے ان فورسز نے وحشت کی ایک دردناک داستان بھی چھوڑی۔ بوچا یا ارپین جیسے علاقوں میں پرامن باشندوں کو ان کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے باندھ کر قتل کیا گیا۔ یہ گمرائی پوٹن کی جارحیت کی نسل کشی کی معروضی گواہی کے طور پر رہتی دنیا تک یا د رکھی جائے گی۔
یہ عام لوگوں کی قربانیوں کی بدولت ہی ہوا کہ صدر زیلنسکی کو یوکرائن چھوڑ کر بھاگنا نہیں پڑا۔ اس جنگ کے سیاسی نتائج جو بھی ہوں، یوکرین کے عوام کی بہادری کو دنیا اجتماعی مزاحمت کے طور پر یاد رکھے گی، جنہوں نے روسی حملہ آوروں کو نکال باہر کئے اورکیف کو بچانے کے لیے بڑی قربانیاں دی۔
جنگ کے پہلے دن سے لیکر، لاکھوں کی تعداد میں عام کارکنوں نے رضاکارانہ بنیادوں پر جنگی اصولوں کے مطابق ہر طرح کا کام کیا۔ حملے سے پہلے فوج کے پاس 50,000 ناقص اور غیر تربیت یافتہ فوجی تھے۔ 2022،شروع کے مہینوں کے دوران ہی یہ تعداد 450,000 فوجیوں تک پہنچ گئی۔ اس کے علاوہ، عوامی عطیات میں بھی تیزی آئی تھی – ہر سپر مارکیٹ اور دکان میں یوکرائنی ڈیفنس فورسز(FDU) کے لیے سامان اور ہتھیاروں کی خریداری کے لیے کلیکشن بکس رکھے گئے تھے۔ یونیفارم اور کیمو فلاج نیٹ بنانے کے لیے ہزاروں ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا۔ اور سب سے اہم: علاقائی دفاعی فوج (TRO) کی بنیاد رکھی گئی جو ملک کے تمام دفاعی اقدامات میں سب سے زیادہ موثر ثابت ہوئی۔ یہ جدوجہد کے لیے عوام کی ایک حقیقی خود ساختہ تنظیم بن کر ابھری۔
تاہم، استحصال زدہ پرتوں سے جنگجوؤں کی بڑے پیمانے پر آمد، جنہوں نے خود کو مسلح کیا اور جدوجہد کیلئے بنیادی اور عملی اقدامات اٹھائے، اور ایک بڑی فوجی مشین کی جارحیت کو شکست دینے کی ممکنہ صلاحیت حاصل کی، حالانکہ جنگ کی شروعات نے مغربی سامراج میں شکوک و شبہات پیدا کئے تھے، جو بظاہر ”یوکرینی کاز کی حمایت کرتے تھے، جس کی اصل وجہ اپنے عوام کی یکجہتی کے دباؤ کو ٹھنڈا کرنا تھا،لیکن مغربی سامراج جنگ کے شروع میں ہی قبول کر چکا تھا کہ یوکرین جنگ میں کچھ دن بھی ٹک نہیں پائے گا۔ ان مفاد پرستوں کے گروہ کی قیادت آج بھی ایک زوال پذیر سامراجی نظریہ دان کر رہا ہے۔حالانکہ وہ اب فوت ہو چکا ہے۔ہنری کسنجر، جونکسن کے ماتحت سابق امریکی وزیر خارجہ تھا، جس نے یو ایس ایس آر کے خاتمے کے بعدعالمی دنیا میں یہ دلیل پیش کی تھی کہ ”بڑی طاقتوں کی طرف سے خاموشی سے قبول کیا گیا عالمی نظام جائز ہے“۔
2014 میں کریمیا پر ماسکو کے قبضے اور ڈان باس میں علیحدگی پسند تنازعہ کو گہرا کرنے اور اس میں مسلح مداخلت کے بعد، کسنجر یوکرین کو روس کے مفادات کے ایک حصے کے طور پر دیکھتارہا۔یہ 2017 میں ماسکو کا دورہ کرتے ہوئے اپنے بیان میں سامراجی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ تسلیم کرتا ہے کہ روس، ایک عظیم طاقت کے طور پر، اپنے ”دائرہ اثر” پر غلبہ حاصل کرنے کا جائز حق رکھتا ہے۔ ایک اچھے سامراج کے طور پر ترقی پذیر قوموں کے مفادات اور خواہشات کو نظر انداز کرتے ہوئے، نہ صرف سابق USSR کی ریاستوں پر بلکہ پوری دنیا کی ترقی پذیر قوموں کو اپنے مفادات کے تابے کر سکتا ہے۔
ماسکو کے کریمیا پر قبضے اور زبردستی الحاق کے ایک ماہ سے بھی کم عرصے کے بعد واشنگٹن پوسٹ میں لکھتے ہوئے، کسنجر نے اعلان کیا: ”روس کے لیے، یوکرین کبھی بھی ایک غیرملک نہیں ہو سکتا۔” اُس نے یوکرائن کے عقلمند رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ اپنے ملک کے مختلف حصوں کے درمیان مفاہمت کی پالیسی اپنائیں اور یوکرائنی باشندوں کی ایک ساتھ آباد کاری کریں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران، ان خیالات کو سی آئی اے کے ڈائریکٹر بل برنز اور جو بائیڈن انتظامیہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے رہنما اصولوں کے طور پر اپنایا۔ اگرچہ، سامراج کے اپنے مزاج اور موقعے پر منحصر ہے،جس طرح امریکہ نے سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کے ذریعے ایک ”مختلف چہرہ” دکھایا۔
ٹرمپ کی طرف سے تجویز کردہ ”حتمی حل”

Trump and Putin, meeting during the previous term of the U.S. president.
Trump and Putin, meeting during the previous term of the U.S. president.

اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ ٹرمپ، اپنے سخت اور سفاکانہ انداز کے ساتھ، بنیادی طور پر کسنجر کی طرح یوکرین کو استعمال کر کے پوٹن کے ساتھ معاہدوں کی کوشش کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ٹرمپ پہلے ہی کٹھ پتلی زیلنسکی کو پیغام دے چکا ہے: ”ہم اس کے لیے میز پر جگہ تلاش کریں گے۔” لیکن کسی نے یوکرائنی مزاحمت کاروں اور محنت کش طبقے سے نہیں پوچھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں جو روس کے خلاف دفاع میں اصل ریڑھ کی ہڈی ہیں!
یوکرین کی علاقائی سالمیت کے جواز کا جواب ان مذاکرات میں کہیں نظر نہیں آتا۔ نئے سیکریٹری دفاع، پیٹ ہیگستھ نے وارسا میں خوش دلی کے ساتھ کہا: کوئی راستہ نہیں! ”یوکرین کے لیے روس کے زیر قبضہ تمام علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا انتہائی غیر حقیقی ہے۔”
ٹرمپ، ایک حقیقی ”گدھ” کی طرح، اس صورت حال سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے جب تمام محاذوں پر روسی جارحیت سست پڑ رہی ہے، فوجیوں کی تھکان، بکتر بند گاڑیوں اور جنگی ساز و سامان کی ترسیل میں مشکلات کے ساتھ شمالی کوریا کے فوجیوں کی مداخلت بھی ناکام ہو چکی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، اس کا مقصد روسی معیشت کی واضح نزاکت اور حکومت کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پوٹن کے ساتھ ”جنگ بندی” پر اتفاق کروانا، بنیادی طور پر امریکی کارپوریشنوں کیلئے نئے مواقعے پیدا کرنے ہیں۔ یہ عمل روسی قبضے کے دونوں ا طراف یوکرائن کو نوآبادیاتی بنانے کی منصوبہ بندی ہے، جس کے ذریعے روسی کارپوریشنوں کے ساتھ مستقبل میں تعاون اور سمجھوتہ کرنے کی ایک کوشش سے ہٹ کے کچھ بھی نہیں۔
آئیے یوکرائنی سرزمین پر اسٹریٹجک دھاتوں کے بہت زیادہ زیر بحث ذخائر پر بات کر لیتے ہیں، نام نہاد ”نایاب زمینی دھاتیں ”۔ یوکرین کے لیے ٹرمپ کا الٹی میٹم پہلے ہی پوری دنیا میں پھیل چکا ہے: ”ان ذخائر تک غیر محدود رسائی کے بدلے میں نئے اسلحے کی ترسیل دوبارہ شروع کی جائے گی”۔ زیلنسکی اپنا جواب پہلے ہی تحریری طور پر بھیج چکا ہے۔ لیکن جو بات اتنی معروف نہیں وہ یہ ہے کہ ان ذخائر میں سے تقریباً 40 فیصد روس کے زیر قبضہ سرزمین پر واقع ہیں۔ جس پر چین کی نظر ہے اور ٹرمپ چیں کو روکنے کے لیے کسی قوت سے بھی مذاکرات کر سکتا ہے۔
نیٹو اور یورپی یونین خود ہی اپنا بحران اور سامراجی حقیقت ظاہرکر چکے ہیں۔

From left to right, Spanish Foreign Minister José Manuel Albares, Ukrainian Foreign Minister Andrii Sybiha, French Foreign Minister Jean-Noel Barrot, European Union High Representative for Foreign Affairs and Security Policy Siim Kallas and German Foreign Minister Annalena Baerbock during a meeting on European defense and Ukraine at the Quai d’Orsay in Paris, France, Wednesday, Feb. 12, 2025.

ٹرمپ کی پوٹن کو فون کالز اور تجاویز، جن کے بعد پوٹن نے یہ اعلان کیا کہ وہ یورپی یونین اور نیٹو کے دیگر ارکان کے ساتھ ”مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم” ہے۔ اس بیانیے نے یورپی سامراج کو ایک بڑے بحران میں دھکیل دیا ہے۔ نیٹو کے اجلاس میں اس کے ایلچی جیسے پیٹ ہیگستھ کے گرجدا ر اعلانات: ”ہم اتحاد میں یوکرین کے لیے کوئی جگہ نہیں دیکھتے۔” اس کے جواب میں، زیلنسکی کی ”پوٹن کے ساتھ بات چیت کرنے سے پہلے حفاظتی ضمانتیں حاصل کرنے” کی قابل رحم درخواستوں نے بھی بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ ہیگستھ نے براعظم کی سلامتی کی ضمانت کیلئے یورپی سامراج کو ایک مشترکہ فوج بنانے کی تجویز بھی دی ہے۔ دوسری طرف، ٹرمپ کے نائب صدر، جے ڈی وینس نے انتخابات کے موقع پر، یورپی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے موجودہ اہم یورپی حکومتوں پر الزام لگایا کہ وہ ”بیرونی خطرات کا جواب دینے میں ناکام ہیں مطلب یہ تارکین وطن کو روکنے میں ناکام ہوئی ہیں جو اندر کے خطرات سے بڑا خطرا ہے ”، خلاصہ یہ کہ یورپی یونین کے سامراجی بلاک کا بحران، کمزوری اور اس کے شدید تضادات نیٹو کو مفلوج کر رہے ہیں۔
اس صورت حال کے انکشاف کے بعد نیٹو کی رکنیت کے ذریعے یوکرائن کی سرزمین پر یورپی سامراجی فوجیوں کی تعیناتی پر ”سیکیورٹی گارنٹی” کی امید رکھنا، جس کا زیلنسکی نے طویل عرصے سے مطالبہ کیا ہے، ایک رجعتی یوٹوپیا ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں کیونکہ اس سے یوکرین کی نوآبادیاتی ماتحتی کو مختلف سامراجی گروپس کے آگے مزید برباد کرنا ہے۔
آخر کار، یہ مسلح محنت کش طبقہ ہی تھا جس نے روسی فوج کو کیف کے علاقے سے باہر نکال کر ”سلامتی کی ضمانت” دی! سامراجی نیٹو نہیں!
یوکرین کی سلامتی کو اس کے اپنے حکمرانوں سے خطرہ ہے۔

یوکرین کے عوام بخوبی آگاہ ہیں کہ ملک کی سب سے کمزورکڑی کیف میں موجودہ حکومت کی پالیسیاں ہیں جو تا حال جاری ہیں۔ شروع میں، روسی سامراج کے بہت سے اتحادی اور ایجنٹس – جیسکہ اولیگار(امرا کا نمائندہ) میدویدچک، پوٹن کا گاڈ فادر – ابھی تک حکومت میں نہ صرف شامل تھابلکہ حکومتی فیصلوں پربھی خاصا اثر انداز ہوتارہا۔ بیشک بہت سارے امرا پہلے ہی دبائے جا چکے ہیں، لیکن سبھی نہیں۔اقتدار کے تمام ”ادارے”، جو بڑی اولیگارشی، مقامی سرمائے اور غیر ملکی کارپوریشنوں کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں، نے کبھی بھی معیشت کو قومی دفاع اور محنت کشوں کے سماجی مفادات کے لیے پیش نہیں کیا اور نہ ہی کریں گے۔
یہی وجہ ہے کہ ملک IMF کے قرضے تلے، مقروض ہونے پر مجبور ہوا ہے اور اس کے حکم کی تعمیل کرنی پڑ رہی ہے اور اپنی انتہائی زرخیز زمینیں اور ٹائٹینیم جیسی معدنیات غیر ملکی کارپوریشنوں کو فروخت کی جا رہی ہیں۔ اور اب ٹرمپ کو ناگزیر ہتھیاروں کے بدلے ”نایاب زمین کی دھاتیں ” چاہیے!
یہی وجہ ہے، جب ملک میں جنگ ہوتی ہے، اسٹیل کے کارخانے مفلوج ہو جاتے ہیں اور معاشرتی ناہمواری بڑھ جاتی ہے!
اسی لیے، 2023 میں اس جنگ کے دوران، oligarch Kolomoisky – اگرچہ وہ اپنے متعدد جرائم کی وجہ سے جیل میں تھا، نے KZRK کی کان کنی اور میٹالرجیکل پلانٹ جو کہ Krivyi Rih میں واقع ہے۔ اس نے اپنا حصہ مشہور روسی oligarch Voievodin کو بیچ دیا! اور اس سے انٹرپرائز مفلوج ہو ئی اور ہزاروں کارکنوں کو بیروزگار ہونا پڑا۔
یہی وجہ ہے کہ حملے کے تین سال بعد بھی گولہ بارود کی پیداوار میں خاطر خواہ ترقی نہیں ہوپائی اور ڈرون کی بڑے پیمانے پر پیداوار پر مرکوز کوششیں ناکافی ثابت ہوئی!
راڈا (یونیکمرل پارلیمنٹ) کی اولیگارک ساخت کی وجہ سے، اس نے علاقائی بھرتی مراکز، TZK کی تشکیل کے ساتھ، بھرتی کے ایسے قوانین متعارف کروائے، جس کی وجہ سے استحصال زدہ شعبوں اور غریب عوام کے خلاف امتیازی سلوک رواں رکھتے ہوئے انہیں جنگ کاروائیوں میں لایا گیا اور امیروں کو مستثنٰی قرار دیا گیا اور وہ مالی قربانی تک محدود رکھے گئے، جس کی وجہ سے مختلف جگہوں پر پرُتشدد تنازعات سامنے آتے رہے ۔
یوکرین کی سلامتی اس کی خودمختاری کی ضمانت ہے۔
یوکرین قومی آزادی اور حقیقی آزادی حاصل کرنے کا مستحق ہے۔ یوکرین کا محنت کش طبقہ اورعام عوام گزشتہ تین سالوں کی جنگی قربانیوں سے تھکن، اپنی حکومت جس نے عوام کے ا بتدائی وسیع ارادے کو ختم کر دیا ہے،کی بڑھتی ہوئی شکایات کے باوجود،سخت مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کرسک کے علاقے اور اب برائنسک میں مزید پیش قدمی کی گئی ہے، اور

قابضین کو ڈون باس کے علاقے میں کچھ اہم مقامات سے واپس دھکیل دیا گیا ہے۔
ڈرون جنگ کا انچارج بریگیڈ روسی سرزمین کے اندر سینکڑوں کلومیٹر تک فوجی اہداف کو نشانہ بنانے کا انتظام کرتے ہوئے تاریخ رقم کر رہا ہے۔ وہ ریفائنریوں، سپلائی اڈوں اور روسی فوجیوں کی کمانڈ پوسٹوں کے اہم حصوں کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ دوسری طرف، یہ واضح رہے کہ ”پارٹیسنشینا”، مزاحمتی تحریک، مقبوضہ یوکرائنی علاقوں میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے، روسی فوجیوں سے تعاون کرنے والوں کو سزائیں دے رہی ہے اور یوکرائنی انٹیلی جنس کو روسی فوجیوں کے مقام اور نقل و حرکت کے بارے میں آگاہ کر رہی ہے۔ اور یہ تحریک ان علاقوں کے حوالے سے حکومت کی نرمی کی صورت میں تیزی سے بڑھے گی۔ اس لیے ہم اس جنگ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے یوکرائن کی فوجی صلاحیت کو کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
بنیادی رکاوٹیں سیاسی اور بین الاقوامی میدان میں ہیں۔ ان رکاوٹوں کا جواب دینے کے لیے، یوکرین کے محنت کش عوام کو سماجی آزادی حاصل کرنا ہوگی۔ اور ایسا کرنے کے لیے ہمیں محنت کش طبقے کی ایک آزاد سیاسی تنظیم کی ضرورت ہے۔ IWL اس کوشش کے لیے پرعزم ہے اور اپنی تمام معمولی قوتوں کے ساتھ واحد قابل اعتماد ضمانت کو فروغ دے رہی ہے: ہم بین الاقوامی محنت کش طبقے اور دنیا کے مظلوم عوام کی یکجہتی اور جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔۔

 

SHARE