Home Pakistan یوم مئی 2023 کا تقاضہ: محنت کشوں کی ایسی تنظیم کو تعمیر...

یوم مئی 2023 کا تقاضہ: محنت کشوں کی ایسی تنظیم کو تعمیر کیا جائے جو جبر اور استحصال کی جزوی و نا مکمل جدوجہد کی فتوحات کو ورکرز کنٹرول یا سوشلزم کی حتمی اور مکمل فتح سے سر شار کرے!

SHARE

آج سرمایہ دارانہ نظام کی وحشت اُسی طرح قائم و دائم ہے جس طرح 137 سال قبل تھی جب اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کیلئے شکاگو کے مزدوروں نے ہڑتال کی اور اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا۔ اُس وقت سے لیکر آج تک دنیا بھرکا محنت کش طبقہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ انتہائی تکالیف، مصائب اور کرب کا شکار ہے، بے شک ترقی یافتہ ممالک کے محنت کشوں نے اپنی قربانیوں اور تحریکوں سے اپنے ممالک کی حکومتوں کو مجبور کرتے ہوئے کچھ حاصلات لیں لیکن یہ حا صلات بھی سامراجی ممالک کی اجارہ داریوں یا سیٹھ لوگوں کی نسبت انتہائی کم تھیں جنہوں نے اپنی ریاستوں، نوآبادیات یا نیم نوآبادیات کے وسائل کی لوٹ مارکرتے ہوئے بے پناہ امیر ی حاصل کی تھی۔

اجارہ داریوں کا کردار

اجارہ داریاں چند سیٹھوں کا تجارتی اتحاد ہے جو کل تک پیداواری عمل میں سرمایہ کاری کرتا تھا لیکن کئی برسوں سے اُس نے اپنا کردار تبدیل کر کے بالکل ہی مفت خوری کو اپنایا یعنی سود پر قرضے دینا اور اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کا کاروبار شامل ہے۔ اسی اتحاد کی بدولت ایسے سامراجی اداروں کی بنیاد رکھی گئی جن کا ابھی تک معاشی سربراہ آئی ایم ایف ہے۔ جو سیٹھوں کیلئے پوری دنیا کی پیداوار، خدماتِ عامہ کے شعبوں اور قدرتی وسائل کیلئے دنیا بھر کی حکومتوں کو استعمال کر کے نیولبرل پالیسیوں کی آڑ میں لوٹ مار کر رہاہے۔

حکومتیں کیسے استعمال ہوتی ہیں؟

محنت کش ساتھیو: اس وقت جو پاکستان میں ہو رہا ہے وہ دنیا کی چند مقابلہ بازی میں بچ جانے والی ملٹی نیشنل (سیٹھوں) کی لڑائی ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں کی اسٹیبلشمنٹ،عدلیہ، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، این جی اوز، ٹریڈیونینز اشرافیہ اور اصلاح پسند پارٹیوں کے درمیان شدید لڑائی اور تقسیم نظر آتی ہے۔ پورے سماج کی تقسیم کی وجہ سے پاکستان کا محنت کش طبقہ بھی تقسیم ہو کر استعمال ہو رہا ہے کوئی پیپلز پارٹی کا حمایتی ہے جس نے اقتدار میں آنے کیلئے 8 69,6 کی انقلابی تحریک کا استعمال کرتے ہوئے آج تک محنت کشوں کے نام پر ریاست میں اپنی حصہ داری قائم رکھی۔ مسلم لیگ جو پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے لیکر آج تک ڈیویلپمنٹ کے نام پر پارٹی کے سرمایہ کار ٹھیکیداروں کیلئے ایڈجسٹمنٹ کرتی رہی ہے۔ مذہبی جماعتیں، امریکہ کی طرف سے عنایت کئے گئے اہداف کے باوجود ہمیشہ نام نہاد بنیادوں پر امریکی دشمنی کا ڈرامہ کرتی رہی ہیں لیکن کبھی بھی آئی ایم ایف کے قرضوں، قرضوں پر سود اور سامراجی کمپنیوں کی پاکستان سے بے دخلی کی بات نہیں کی۔ حالیہ سالوں میں ایک نئے چاکلیٹی پینترے بدلنے والے جعلی ہیرو کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مخصوص نصاب دیکر ماہرین ِنفسیات کی چھترچھاؤں میں لانچ کیاگیا۔ جو نئے پاکستان کی بات کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے ناطہ توڑنے،بے گھروں کو لاکھوں گھروں کی فراہمی اور کروڑوں نوجوانوں کو روزگار کی ضمانت دیتے ہوئے میدان میں لایا گیا، کیونکہ محنت کش طبقہ باقی تمام پارٹیوں کی جعل سازی کو سمجھ چکا تھا اور یہ بھی ہو سکتاکہ کچھ عرصے تک خودرو طریقے سے اپنی بنیادی مانگیں لیکر چیلنج کرتا،سو عوام کے غصے بڑی تحریک کو زائل کرنے کیلئے عمران خان کو اقتدار دیا گیا۔یہ ریاست کی وہ حکمت ِ عملی ہے جو دراصل عالمی سیٹھوں کی رہنمائی میں محنت کشوں کی تحریکوں کے خلاف بنائی جاتی ہے۔
محنت کش ساتھیو: چونکہ سامراج جس میں مرکزی حیثیت مالیاتی سرمائے کو حاصل ہے جو اپنے حواریوں کے ذریعے خاص منصوبہ بندی رکھتا ہے اس لیے بعض اوقات ایسی ایسی شخصیات یا پارٹیوں کو سامنے لاتا ہے جن کی بحران کے مخصوص عہد میں ضرورت ہوتی ہے۔اس لیے ہم متفقہ طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کے آنے اور جانے کی دو وجوہات ہیں ایک آتے وقت عمران خان نے لوگوں کے مسائل کو لیکرانکی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے تمام بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے وعدے کئے، دوسری اقتدار کی بے دخلی کے وقت امریکی اور اُس کی پروردہ اسٹیبلشمنٹ مخالف پروپیگنڈہ کا انتظام کیا۔کیونکہ سامراج اور اُس کے حواری جانتے ہیں کہ دنیا میں ان کے خلاف کتنی نفرت موجود ہے اور اُس نفرت کو محنت کشوں کے انقلاب کی نسبت بہترہے کہ،مفادات پرست لوگوں جن میں آج عمران خان جیسا مظہر اور کل بلاول، مریم یا کسی تیسرے مظہر سے کام لیا جا سکتاہے،کے ذریعے کنٹرول کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے دوبارہ مڈل کلاس اور محنت کش طبقے کے نوجوانوں میں اپنا اثر قائم کیا جو یہ سوچتے ہیں کہ عمران خان کو پھر موقع ملا تو وہ امریکی سامراج اور اسٹیبلشمنٹ کو شکست دے گا حالانکہ وہ سامراجی اجارہ داریوں یعنی سیٹھوں کے ایک دھڑے اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ ہے جولوٹ کھسوٹ میں حصہ داری چاہتے ہیں اس لیے عمران خان کبھی بھی آئی ایم ایف کے قرضوں کی ضبطگی اور اسٹیبلشمنٹ کی دیوہیکل معاشی سرگرمیوں کو قومیانے کی بات نہیں کرتا پھر وہ کیسے محنت کشوں کا ہمددر اور مسیحا ہو سکتا ہے؟
تحریک انصاف میں چند غائبی ہاتھوں کے علاوہ عمران خان عقل ِ کل ہے۔ اس لیے کبھی کبھار پارٹی میں موجود جاگیردار اور سرمایہ دار بڑی تعداد میں بکنے کو تیار رہتے ہیں۔ہاں کچھ مڈل کلاس نوجوان اور دیہی سرمایہ دار جو ریاستی وسائل کو نئے طریقے سے لوٹنے کی ایڈجسٹمنٹ چاہتے تھے جنہیں پچھلے اقتدار کے دوران کچھ کم ملا، اس لیے وہ ابھی تک جان دینے والے کارکنان کے طور پر عمران خان کے ساتھ موجود ہیں،اور انہیں اتنی عقل نہیں کہ ابھی تک اسٹیبلشمنٹ تقسیم ہے جس دن اسٹیبلشمنٹ ایک ہو گئی تو یہ مڈل کلاسیے جو پایا ہے اس کے کھونے پر معافیاں مانگتے پھریں گے۔
پاکستان کی طرح تقریباًدنیا بھر کی حکومتیں سامراجیت کا نمائندہ ہیں مطلب جس کے پاس جتنی زیادہ دولت ہے اُس کا دنیا بھر کی حکومتوں پر اتنا ہی بڑا اثرو رسوخ ہو گا، ایک تو پوری دنیا کی حکومتوں میں موجود لوگوں کو کچھ فیصد شیئرز دیئے جاتے ہیں تاکہ ان سے متعلقہ ملکی وسائل تک آسانی سے رسائی حاصل کی جا سکے اور دوسرا آئی ایم ایف جیسے ادارے کے ذریعے پہلے ترقی پذیر یعنی ہمارے جیسے ممالک کے حکمرانوں کو قرضوں کے ساتھ ایسے ہداف دیئے جاتے ہیں کہ کیسے پیداواری اور خدمات عامہ کے ادروں کی ناکامی کاپروپیگنڈہ کیا جائے تاکہ محنت کشوں کے بنائے ہوئے اداروں کو آسانی کے ساتھ کوڑیوں کے داموں خریدا جا سکے، جس میں کسی حد تک بہت ساری پاکٹ ٹریڈ یونینز کی قیادت بھی شاملِ عمل رہتی ہے۔ یہ اشرافیہ مزدور کو چھوٹی موٹی چھوٹ دے کر زیادہ سے زیادہ کام چوری کی طرف مائل کرتے ہیں تاکہ عام عوام کے سامنے اداروں کے محنت کشوں پر اعتماد ختم ہو، پاکستان میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے سرکاری تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، بجلی، گیس،اورمتوقع کسی ریل، پی آئی اے اور بیسیوں پیدواری اور خدمات عامہ کے دوسرے شعبوں پر عوام کا کوئی اعتماد نہیں اس کافائدہ اٹھا کر نجکاری کی ساری ذمہ داری ادارے میں کام کرنے والے محنت کشوں پر ڈال دی جاتی ہے حالانکہ ہر حکومت نے اُن اداروں میں ہمیشہ اپنی من پسند بیوروکریسی کو محنت کشوں کی نسبت 15 سے 20گناہ زیادہ تنخواہوں اور مراعات پر رکھا جس کا متعلقہ ذمہ داری یا شعبے سے کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا۔اس کا مطلب ہے وہ یبوروکریسی اداروں کی بربادی کی ذمہ دار ہے یا اُس کو متعلقہ ذمہ داری پر رکھنے والے نا اہل حکمران!وہ ادارے جن کو محنت کشوں نے اپنی محنت سے بنایاتھا آج وہ اپنے بڑھاپے میں پہلے سے ناکافی پنشنز کے چھن جانے کے ڈر میں مبتلا ہیں۔

ٹریڈ یونین قیادت کی ناکامی!

ہم سمجھتے ہیں کہ سویت یونین کے وقتوں میں وہ قیادت جو محنت کشوں کے چھوٹے موٹے روزانہ کے حقوق کی ترجمان تھی وہ سویت بیوروکریسی کے ساتھ ہی دفن ہو گی اُس کے بعد پوری دنیا کی طرح ہماری لیبر اشرافیہ بھی اب آئی ایل او کے پروجیکٹس یا این جی اوز بنا کر انسانی حقوق کے نام پر ٹریڈ یونینز کرتی ہے۔ ہاں کبھی کھبازقیادت کے نزدیک ترین محنت کشوں کی انفرادی طور پر تنخواہوں، الاوُنسز وغیر ہ کی کچھ حاصلات لے لیتی ہے ورنہ زیادہ تر محنت کش تو اس لیبر اشرافیہ کودل ہی دل میں کوستے ہی رہتے ہیں۔ جہاں محنت کشوں کے ادروں کو نیلامی تک لانے میں حکمرانوں اور بیوروکریسی کا ہاتھ ہے وہاں اس لیبر اشرفیہ کا بھی ہاتھ ہے جو عالمی سامراجی اداروں یاان کی این جی اوز کے ذریعے دنیا بھر کی ایئر ویز کے مزے لیتے ہوئے میٹنگز میں شرکت کرتے ہیں۔

کیا مزدور یہ نہیں دیکھ رہے؟

اس لیے آج ہزاروں کی تعداد میں افرادی قوت رکھنے والی یونینز، فیڈریشنزیا کنفیڈریشنز صرف چند سو کی تعداد تک کے پروگرامات کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں اور زیادہ تعداد میں نہ ہی آفس رکھتی ہیں اور نہ ہی مزدور چندہ دیتے ہیں۔ آخر کار مزدور انھیں کیوں چندہ یا وقت دیں جنہوں نے ہمیشہ حکومت یا مالکان سے سمجھوتہ کرتے ہوئے اپنے لیے بے پناہ آسائشیں یا رعایتیں حاصل کی اور محنت کشوں کو صرف ذلیل و ر سوا کیا۔

کیا کیا جائے؟

محنت کش ساتھیو ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان اس وقت انقلاب سے پہلے کی صورت ِ حال سے گزر رہا ہے۔ پیداواری قوتیں چاہے وہ زراعت ہو یا صنعت دونوں مسلسل تنزلی کا شکار ہیں۔ زراعتی زمینوں کو استعمال کرکے ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائی جا رہی ہیں۔کسان بیجوں، کھادوں اور بجلی کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے کاشکاری سے دستبرار ہو رہے ہیں۔ سرمایہ دار فیکٹریاں بند کر کے دوسرے ممالک کا رخ کر رہے ہیں، زیادہ تر اشیا خوردونوش سے لیکر آسائشوں کا سامان دوسرے ممالک سے برآمد کیا جا رہا ہے۔مڈل کلاس چاہے پیداواراور خدمات کے شعبوں سے ہو یا چھوٹے کاروبارسے اُس کی آمدن میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ محنت کش طبقہ بنیادی ضرورتوں سے محروم ہو گیا ہے۔ برآمدات میں کمی آنے کی وجہ سے عالمی منڈی میں پاکستان کا حجم نہ ہونے کے برابر ہے۔ بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔حکمران مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہو نے کی وجہ سے پھر نسلی، لسانی اور مذہبی بنیادوں کواستعمال کرتے ہوئے محنت کش طبقے کو تقسیم کرنا چاہ رہے ہیں۔ایک دفعہ پھر پشتون بیلٹ میں طالبان کی آڑ میں پشتونوں کی نسل کشی کی تیاری کی جا رہی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ریاستی ہتھکنڈوں کو سمجھ کر برابری کی سطح پر تمام تر مسائل کو زیر بحث لایا جائے۔چاہے وہ مسائل بے شک انفرادی طور پرکسی بھی فرد کے ہوں۔

عبوری پروگرام

کشمیر چونکہ برصغیر کی تقسیم کے وقت سے ہی ایک متنازع نیم نوآبادیات ہے۔جسے انڈیا اورپاکستان کے حکمرانوں نے اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے ہوئے خوب کاروبار کیا۔ ہم سب اگر تھوڑاگہرائی کے ساتھ دیکھیں اور ان سابقہ فوجی یا سول حکمرانوں کے بیانات کی طرف جائیں تو سیدھا سیدھا لگتا ہے کہ کس طرح دونوں ممالک انڈیا اور پاکستان نے محنت کشوں کے وسائل کو استعمال کرتے آپسی گٹھ جوڑ سے بے پناہ دولت کمائی۔ اگر ہم آج سوچیں کہ یہی دفاع کا بجٹ انڈیا اور پاکستان اپنے عوام کی تعلیم، صحت اور پیداواری عمل پر استعمال کرتے تو آج ہر بچہ سکول کے اندر ہوتا،اُس کا نصاب ا علیٰ تحقیقی مراکز پر مشتمل ہوتا جہاں ہر ایک سے یاداشتوں کے بجائے صلاصیتوں کا امتحان لیا جاتا۔صحت مفت ہونے کی وجہ سے ہر ایک علاج کرواتا۔ پیداواری عمل کی بہتری سے جہاں خوراک، لباس اور تعمیر ستے داموں میسر ہو سکتی وہاں بے شمار نوجوانوں کو روزگار کے مواقع مہیا کئے جا سکتے تھے لیکن اس سے حکمرانوں کو کوئی غرض نہیں، غرض تو صرف اس سے کہ لوگو ں کو ایسی تعلیم یا آرٹ دو کہ وہ ہمیشہ قومی، لسانی اور مذہبی بنیادوں تقسیم رہیں جو انگریز کی پالیسیاں تھیں، وہ انگریز کے جانے کے بعد بھی مسلمان اور ہندو حکمرانوں نے جاری رکھیں۔اس وقت ضروری ہے کہ پاکستان کا محنت کش طبقہ کشمیر ایشو پر بات کرے کیونکہ آج تک انھیں بتایا جاتا رہا کہ کشمیر ی ہمارے مسلمان بھائی ہیں ہمارے اپنے ہیں ان کیلئے لڑیں گے چاہے ہزاروں سال لگ جائیں۔ آج کیا یہ سوال نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان اپنے کنٹرول زدہ علاقوں آزاد کشمیر اور گلگت بلستان کو آئین ساز اسمبلی کا حق دیتے ہوئے کشمیریوں کے ساتھ کشمیر کی وحدت اورباقی کشمیرمیں ریفرنڈم کی حمایت کرے ورنہ باقی کوئی ہمدری،کوئی بھائی چارہ، کوئی دوستی، کوئی مذہبی چورن صرف منافقت ہے جو پاکستان کے حکمران کرتے آئے ہیں اور انڈیا کی اگست 2019 کی کاروائی میں برابرکے شریک جرم ہیں۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ قوموں کی برابری تب ممکن ہے جب انھیں برابری کا درجہ دیا جائے ان کے مسائل میں ان کا ساتھ دیا جائے۔کشمیر ایک ایسا سلگتا زخم ہے جو کشمیر کے عوام کے دلوں میں ہر خوشی غمی کے موقع پر ہرا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ کشمیر کے درمیان انڈیا اور پاکستان کے حکمرانوں نے جو سرحد کھینچ رکھی ہے اُس کی بدولت رشتے دار تقسیم ہیں جو ایک دوسرے تک اپنی آواز تو پہنچا سکتے ہیں پر کبھی گلے نہیں مل سکتے اس لیے ضروری کہ پاکستان کے محنت کش آزاد کشمیر اور گلگت بلستان کیلئے آئین ساز اسمبلی کی حمایت کرتے ہوئے کشمیر کی وحدت اور ریفرنڈیم کی تحریک کا حصہ بنیں!
اس کے علاوہ ہمیں عورتوں کیلئے برابر روزگار، برابر تنخواہ، سرکاری باورچی خانے، سرکاری دھوبی گھاٹ، ڈے کیئر سینٹرز اور اُن کے خلاف ہر طرح کی سیاسی، معاشی اور قانونی بلیک میلنگ پرکھل کر بات کرنی چاہیے۔
مظلوم قوموں کیلئے حقِ خودارادیت بشمول حقِ علیحدگی یعنی پاکستان کے موجودہ حالات میں ہر انقلابی کو چاہیے مظلوم قوموں کے ریفرنڈم کی حمایت کرے چونکہ ریفرنڈم سرمایہ داری کی طر ف سے دیا گیا ایک طریقہ کار ہے اس لیے اس جمہوری حق کو استعمال کرنا ہر مظلوم قوم کا سیاسی حق ہے۔
مزدوروں کی تنخواہیں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ بمعہ حقوق ، ڈاؤن سائزنگ،رائٹس سائزنگ اور نجکاری جیسے شبدوں کا مکمل خاتمہ! تمام اداروں کو ورکرز کنٹرول یعنی ورکرز کی حاکمیت میں لانا،یہی عمل ہے جس سے اوقات کارمیں کمی لاتے ہوئے،بے روزگاروں کو روزگار کی فراہمی اور عام عوام کیلئے ایمرجنسی بنیادوں پر پیداوار کو بڑھایا جا سکتا ہے!
محنت کش عوام کیلئے بنیادی اشیا ئے خوردونوش کی پیداوار بڑھانے کیلئے ضروری ہے کہ زراعت کو لیکر ہنگامی بنیادوں پر کسانوں کیلئے پانی، ٹریکڑ، کمبائن ہارویسٹر(فصل کانٹے اور اکٹھی کرنے والی مشین) زرعی ماہرین، براڈ کاسٹ سیڈر(بیج بونے کی مشین)اور۔۔۔۔۔ زرعی تحقیقاتی مراکزبمعہ جدید تکنیک ری بورٹس،درجہ حرارت اور نمی کیلئے سینسرز،فضائی فوٹو گرافی کے آلات وجی۔پی۔ایس ٹیکنالوجی کی فراہمی!اس لئے ضروری ہے کہ کسانوں کی یہ مانگیں مزدور تنظیموں کے پروگرام کا حصہ ہوں۔
مڈل کلاس چونکہ سرمایہ داری کو چلانے والی اہم پرت ہے۔اور اگر مڈل کلاس آج سرمایہ دارانہ ریاستوں کا ایندھن بننا بند کر دے تو کوئی بھی سرمایہ دارانہ ریاست دھڑم سے گرجائے گی لیکن چونکہ اس پرت کے مزاج میں درمیانہ پن ہے جو سرمایہ داری کا بچا کچا حاصل کرتی رہتی ہے اس لیے ساری عمر روتے دھوتے گزارتی ہے پھر بغاوت کو کوئی حتمی شکل نہیں دیتی پارٹی بدل بدل کر تھک جاتی ہے پر خود سے کوئی قدم نہیں اٹھاتی۔مڈل کلاس کی یہ ساری خواہشات ترقی کے دنوں میں ہوتی ہیں اور جوں ہی بحران آتا ہے اپنی آمدن گرنے کی وجہ سے مسلسل پریشانی میں سرمایہ داری سے مسلسل ٹوٹتی جاتی ہے اورمحنت کش طبقے کے ساتھ مروجہ ڈھانچے کے خلاف انقلاب کی جانب بڑھتی ہے پر پھر بھی طبقات کے درمیان مصالحت کے چکر میں رہتی ہے جو مقابلے میں جیت جا ئے اُسی کے ساتھ ایڈجسمنٹ کر لیتی ہے کیونکہ انقلاب یا ردِانقلاب دونوں صورتوں میں مڈل کلاس کی ضرورت رہتی ہے پر ایسا بالکل نہیں کہ مڈل کلاس بالکل انقلاب کا حصہ نہیں بنتی بلکہ مڈل کلاس کے کچھ اقلیتی حصے ایک دم انقلاب کے ہر اول دستہ بھی رہتے ہیں۔ پاکستان میں حالیہ مڈل کلاس کی قیادت کامرکزہ ریٹائرفوجی کر رہے ہیں جن میں کچھ کا درجہ بریگیڈیئر،اور باقی کرنلز اور میجرلیول کے ہیں جنہوں نے ریئل اسٹیٹ کے بلبوتے پر کچھ باقی پرتوں کوجوڑے رکھا ہواہے جس میں وکلا، صحافی، ڈاکٹرز، بنیک منیجر، لیبر اشرفیہ، بڑے کسان اور چھوٹے کاروباری، جو نئی نئی سوسائٹیوں میں پاگل پن کی حد تک سرمایہ کاری کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ہمیں اس کا اندازہ اس طرح ہو رہا ہے کہ اگر عمران خان کے ساتھ مڈل کلاس ہے تو اُس میں زیادہ تر رٹیائرڈ فوجیوں کے خاندان شامل ہیں جو یقینی طورپر گھروں کے سرپرست کے آشرباد سے ہی جلسے جلسوں میں شامل ہوتے ہیں تاکہ ریاست میں مڈل کلاس کی حصہ داری، ریئل اسٹیٹ کے کاروبار کو دوبارہ وسعت دینا اور جرنیلوں کا ماضی میں ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے بدلے کے علاوہ کچھ نہیں اور آج بھی کوئی جنرل چھوٹی موٹی سرمایہ کاری کی اجازت دے دے تو پھر اعجازالحق جیسوں کو بھی تحریک انصاف میں شامل ہونے پر کسی مڈل کلاس کا کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔پر اگر محنت کش طبقہ ورکرز کنٹرول کی بات کرتا ہے تو ضروری ہے کہ مڈل کلاس کے حقوق اور فرائض کو مزید وسیع بنیادوں پر سامنے لانے کی کوشش کی جائے۔
بے گھر لوگ زیادہ تر وہ ہیں جو دہائیوں سے پاکستان کے بڑے بڑے شہروں کے کناروں پر چھوٹی چھوٹی جھونپڑیاں بنا کر رہتے تھے۔ اُسوقت سے لیکر آج تک وہ امیر شہروں کے امیر زادوں کا نسل در نسل فضلہ صاف کرتے آ رہے ہیں آج ترقی کے نام پر چند سرمایہ داروں کی ایما پر بغیر متبادل کے انسانوں کو راتوں رات اُن کی جھونپڑیوں سمیٹ کیڑے مکوڑوں کی طرح ہٹاتے ہوئے ہر طرح کا جبر رواں رکھاجارہا ہے۔ہاں کچھ جگہوں جیسے اسلام آباد میں این جی اوز اور کچھ دوسرے انسانی حقوق کی تنظیموں کی وجہ سے لے دے میں وقت لگ رہا ہے پر یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک بے گھر لوگوں کے اند رسے دلیر و انقلابی قیادت سامنے نہیں آتی، این جی اوز انھیں بیچ کر کھاتی رہیں گی اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا اس لیے پاکستان کے محنت کشوں کی تنظیموں کو ہر صورت بے گھر لوگوں کو اپنی فیڈریشن یا کیفیڈریشن کا حصہ بنانا پڑے گا۔
پاکستان، جہاں ہر انسان تقدیر کو مانتا ہے پر سب سے زیادہ قدرتی طور معذور افراد خواجہ سروں کے ساتھ انتہائی نارواسلوک رکھا جاتا ہے۔ خواجہ سر بیچاروں کو کبھی بھی زندہ ہونے کا احساس نہیں ہو تا اس لیے ضروری ہے کہ ہم خواجہ سروں کو اپنی تحریکوں کا حصہ بنائیں۔ ان کے ساتھ انسان دوستی اور کامریڈ شپ کے رشتے قائم کریں۔
طلبہ: اس ملک کے حکمرانوں نے اپنی اولادوں کو سیاست میں برقرار رکھنے کیلئے ایک چال کے ساتھ طلبہ یونین پر پابندی عائدکروائی۔ مختلف اوقات میں مختلف حکومتیں اس پابند ی پر رسمی لفاظی کرتے ہوئے پابند ی ہٹانے کی باتیں کرتی رہیں اور ساتھ ہی علاقائی یا لسانی کونسلز کو استعمال کر کے یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اندر تشد د کروایا جاتا رہا تاکہ طلبہ یونین پر پابندی کا سلسلہ برقرار رہے اور محنت کش طبقے تک سیاست پہنچانے کے اہم راستے طلبہ یونین پر پابند ی رہے اس لیے ضروری ہے ہماری تنظیموں کے اہم مطالبات میں طلبہ یونین پر پابندی کا خاتمہ شامل ہونا چاہے اور ساتھ ساتھ طلبہ کو مزدور تنظیموں کا حصہ بنایا جانا چاہیے!
سوشلزم یا ماحولیات کا خاتمہ کے نعرہ کے ساتھ ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں کی عالمی نوعیت ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہر ممکنہ موثر اور مناسب حکمتِ ِعملی وضع کرنے کا عندیہ دے رہی ہے۔ ان تبدیلیوں نے بہت عرصہ پہلے الارمنگ حالات کی نشاندہی کر دی تھی مگر گزشتہ برسوں میں عالمی اور ملکی سطح پر کسی بھی ماحولیاتی ادارے نے اس نہایت گھمبیر ایشو پر کوئی بھی سنجیدہ منصوبہ بندی نہیں کی یقینا سرمایہ دارانہ نظام کے سیٹھوں کو اس میں منافع نظر نہیں آ رہا۔ ہم ملکی اور عالمی سطح پر ماحولیات کو لیکر سرمایہ دارانہ مخالف آوازوں کے متحرک ہونے کو اہمیت دیتے ہیں اور پاکستان میں سیلابوں سے سالانہ کی بنیادوں پر رونما ہونے والی تباہی اور زلزلوں کی متوقع آمد سے بچنے کیلئے ضروری ہے کے ماحولیاتی تباہی سے بچنے کیلئے حکومتوں کو فوری اقدمات کرنے پر مجبور کیا جائے اور مکمل اقدامات کیلئے جدوجہد جاری و ساری رکھی جائے اور ماحولیات پر کام کرنے والے ریسرچرز کو مزدور تنظیمو ں کا حصہ بننے کی اپیل کی جائے۔

کیا سامراج کی تکنیکی اور عسکری طاقت انقلاب کی فتح میں رکاوٹ ہے؟

بہت سارے ایماندار ساتھی جو سرمایہ داری سے نفرت کرتے ہیں اُسے ختم کرنا چاہتے ہیں ایسا سوچتے ہیں کہ انقلاب کیلئے فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی میں مہارت بھی بہت اہم ہے کیونکہ سرمایہ داری خود کبھی بھی پُر امن طریقے سے اقتدار محنت کشوں کے ہاتھوں میں نہیں دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مزدوروں کیلئے اسلحہ سازی کا دفاع کرتے ہیں مثال کے طور پر ہم روسی حملے کے خلاف یوکرین کیلئے ہتھیاروں کامطالبہ کرتے ہیں۔
لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ فوجی برتری فیصلہ کن عنصر نہیں ہے۔ جب 1918 میں روس کے اند ر خانہ جنگی شروع ہوئی۔برطانیہ، فرانس، امریکہ اور جاپان کی سرپرستی میں 14 ممالک کی فوجیں، ہتھیاروں، مشیروں اور روسی سرمایہ داروں (نام نہاد سفید فام روسیوں) کے ساتھ ملکر سوویت یونین پر حملہ آور ہوئیں۔یہ سب کچھ اُس مزدور ریاست کو شکست دینے کیلئے کیا گیا جس نے اپنی فوج تیار کرنی تھی۔
اتحادیوں کے پاس بڑی فوجی طاقت ہونے کے باوجود وہ انقلاب کو تباہ نہیں کر سکے جس کی بنیادی وجہ فوجی طاقت کے فرق کے باوجود حوصلوں کا بڑا فرق تھا۔ سامراجی فوجوں اور سفید فام روسیوں کے سپاہی اپنے مالکوں کے مفادات کیلئے لڑ رہے تھے۔ جبکہ سرخ فوج کے مزدوروں اور کسانوں نے انقلاب کے ساتھ جو کچھ حاصل کیا تھا اُس کا دفاع کر رہے تھے۔ بے روزگاری کا خاتمہ، مکان، زمین، علاج، تعلیم، مساوات اور اصل میں وہ اپنی عزت کا دفاع کر رہے تھے۔ اس لیے وہ الگ اخلاقیات کے ساتھ لڑے اور وہی غالب رہے۔
ایک اور عظیم مثال ویتنام کے لوگوں کی ہے جو یانکی(Yankee) فوج کی نسبت انتہائی کمزور اور غیر مسلح تھے لیکن 1975 میں ناقابل ِ شکست بن کر ابھرے اور دنیا کی طاقتوار فوج کو شکست دی۔ بے شک اس میں امریکہ کے عوام کی یکجہتی شامل تھی جس نے اُس وقت ویتنامیوں کے حوصلے اور بہادری میں مزید اضافہ کیاجب امریکہ کے عوام نے یہ کہتے ہوئے بغاوت کی کہ ہم اپنے بیٹوں کو اُن مفادات کے دفاع کرتے ہوئے مرنے نہیں دیں گے جو مفادات کسی اور کے ہیں۔
ایسا ہی کچھ ہم یوکرین میں دیکھ رہے ہیں جہاں ہتھیاروں میں انتہائی کمزور ہونے کے باوجود یوکرین کے عوام قابض روسی فوج کے حوصلے پست کرنے کیلئے بہت سے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ فوجی برتری قطعی رکاوٹ نہیں۔

کیا یہ مسئلہ ہے کہ محنت کش طبقہ لڑنانہیں چاہتے؟

یہ اک دلیل ہے جو ہم نے کئی بار ورکرز اور اصلاح پسندوں سے سنی ہے۔جو ہمیں بتاتے ہیں کہ اب وقت 1917 کی طرح نہیں ہے جب روس میں انقلاب ہوا تھا یا 1959 نہیں جب کیوبا کا انقلاب ہواتھا۔ اب محنت کش طبقہ مختلف ہے۔ آج ہم اِن مایوس انقلابیوں سے گزارش کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں سرسری نظر ڈالیں کہ سماج کے اندر ایک ہل چل نظر آ رہی ہے۔ چلی کے بے روزگار نوجوان، محنت کش اور طلباء سڑکوں پر نکل کر یہ نعرے لگاتے ہیں مسئلہ 30 پیسو کا نہیں مسئلہ 30 سالوں کا ہے۔ جن میں بہت سارے قید کئے گئے،مسخ کئے گئے، مارے گئے۔کیا وہ لڑنا نہیں چاہتے تھے؟
کیا سری لنکا میں کولمبیا، فلسطین،کیوبا، اور ایران میں بغاوت کرنے والے لڑنا نہیں چاہتے تھے؟
کیا ہندوستان، چلی، ارجنٹائن کی خواتین لڑنا نہیں چاہتی تھیں۔ کیا امریکہ کے اندر جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد سڑکوں پر نکلنے والے اور لڑنے والا کوئی نہیں تھا؟ کیا اب جن کا یقین انقلاب اور اپنے آپ سے اٹھ چکا ہے وہ یہ قبول کریں گے؟
حقیقت کچھ اور ہے مسئلہ محنت کش یا مقبول عوام کے لڑنے کے لیے تیار ہونے کا نہیں مسئلہ یہ ہے کہ ان کے رہنماانھیں کیا بتاتے ہیں، جو یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ سرمایہ داری کا خاتمہ ممکن نہیں ہمیں اس نظام کے اندر بہتری ممکنہ حد تک حاصل کرنی چاہیے۔ ہمیں اصلاح پسندوں کے ساتھ وسیع محاز بنانا چاہیے۔ یہاں تک کہ سرمایہ داری کے ساتھ بھی کیونکہ ہم بڑی اور زیادہ تعداد میں ہیں اقلیت میں موجود سرمایہ داروں سے نہیں ڈرنا چاہیے۔

یکجہتی اور جدوجہدکیلئے لیبر ا ینڈپاپولر نیٹ ورک پاکستان۔۔۔ کو تعمیر کرو

مزدوریونینز اور عوامی تحریکیں جو محنت کشوں اور سماج کی دیگر مظلوم پرتوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے مربوط انداز میں لڑنے کا ارادہ رکھتی ہوں ان کے پاس سرمایہ داری کے حملوں کے خلاف مشترکہ حکمت ِعملی کے ساتھ مسائل کے حل پر اپنی پوزیشن ہو۔سرمایہ داری اپنی موجودہ زوال پذیری سے بہت پہلے ہی ناکام ثابت ہو چکی ہے کہ وہ محنت کشوں کی زندگیاں بہتر بنانے سے قاصر ہے۔گزشتہ صدی میں جدوجہد سے حاصل کی گئی حاصلات، ریاستوں کے متعدد آلات کا استعمال کر کے ختم کی جا رہی ہیں۔ جس کے پاس سرمایہ ہے وہی معاشرے کی معاشی اور سیاسی طاقتوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں سے چھین کر بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کیلئے استعمال کیا جائے۔
اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ نیٹ ورک محنت کشوں کے فوری معاشی اور دیگر مخصوص مطالبات کے دفاع میں روزانہ کی جدوجہد نہ کرے لیکن ہمیں اپنی روزمرہ کی چھوٹی یا قلیل المدت جدوجہد یہ سمجھ کر کرنی چاہیے کہ طویل المدت اور حتمی حل سرمایہ داری کا خاتمہ ہی مشکلات سے نجات اور ایک غیر طبقاتی سماج سوشلزم کی تعمیرکر سکتا ہے۔ نیٹ ورک ٹھوس موبلائزیشن کو انجام دیگا جو ہماری یونینز یا ایسوسی ایشنز کے اندر سرمایہ داری کو مزاہمت اور تمام اداروں پر سوالات کرنے کی جسارت کرئے گا۔ جو محنت کشوں کے کلی سیاسی شعور کو بڑھانے اورمعاشرے کی تبدیلی کیلئے آنے والی جدوجہد کو لیکر تعلیم و تربیت کا بندوبست کریگا۔
دونوں عوامل فرقہ پرستی، جو محنت کشوں کی جدوجہد کو محدود کرتی ہے جیسے ایک کسی مخصوص شعبے کے فوری مسائل تک محدود ہونا اور دوسرا معاشیات تک مطلب صرف نوکریوں، تنخواہوں یا الاؤنسزتک اپنے آپ کو محدود رکھنا۔یعنی کسی بھی شعبے کے مخصوص مطالبات کو محنت کش طبقے کے عموی مطالبات سے الگ کر کے دیکھنا۔ لہذا نیٹ ورک کی طرف سے ایسی حکمت ِ عملی کو چیلنج کیا جانا چاہیے۔اس طرح کے عمل کے ساتھ اتحاد ہمیشہ اصلاحی پروگرام کے گرد گھومتا رہے گا۔ مطالبات کو یکجا کئے بغیر الگ الگ مطالبات رکھنا ایک طرف فرقہ واریت کی شکل اختیار کرنا اور دوسری طرف اکیلے ہو کر ریاست اور مالکان سے جدوجہد میں شکست کھانا تحریک کا لازماً جزو ہے۔ ان بنیادوں پر ہم بنیادی مطالبات اور حقوق کا دفاع کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے گے۔
اس لیے ضروری ہے کہ تمام اداروں کے مسائل کو اجتماعی مسائل کا درجہ دیتے ہوئے یکجہتی اور جدوجہد کے ملکی اور عالمی لبیر اور پاپولر نیٹ ورک کو تعمیر کیا جائے۔

SHARE